اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کی تاریخی حیثیت و اہمیت سے اس لئے انکار ممکن نہیں کہ اس کالج سے مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے ہر سال اپنی ایک نظم اس کالج میں پڑھ کر سناتے تھے۔ قومی درد رکھنے والے لوگ یعنی خواتین و حضرات جوق در جوق انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں علامہ اقبال کی نظم سننے آیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم انجمن حمایت اسلام کے 37ویں سالانہ اجلاس میں پڑھی‘ جو اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ یہ وہی دور تھا جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اتحادیوں کی شہ پر یونانیوں نے انا طولیہ میں فوجیں اتار دی تھیں اور شریف حسین انگریزوں سے مل کر سلطنت عثمانیہ سے اپنا رشتہ توڑ چکا تھا۔ علامہ اقبال پر نظم پڑھتے ہوئے اس قدر رقت طاری ہوئی کہ بیس ہزار کا جمع بھی اشک بار ہو گیا۔ اس نظم کے یہ اشعار دیکھئے۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آگ ہے‘ اولاد ابراہیم ہے‘ نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
بانی پاکستان حضرت قائداعظم جتنی بار لاہور تشریف لائے۔ انہوں نے کم و بیش چودہ پندرہ مرتبہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ہی میں قدم رنجہ فرمایا۔ اس عظیم درس گاہ کا کیا یہ اعزاز کم ہے کہ یہاں تحریک پاکستان کے بڑے بڑے ہیرو تشریف لاتے رہے۔ اس کالج کے طلبہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے نہ صرف محبت کرتے تھے بلکہ ان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ بانی ’’نوائے وقت‘‘ حمید نظامی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے ذہین و فطین طالب علم تھے۔ انہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر ایم ایس ایف کی بنیاد رکھی۔ حمید نظامی صاحب کو لکھنے لکھانے کا شوق تھا وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح وہ کالج میگزین سے بھی منسلک رہے۔ قائداعظم نے حمید نظامی کو ہدایت کی کہ وہ مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لئے ایک اخبار بھی نکالیں۔ انہوں نے اپنے قائد کی ہدایت پر ’’نوائے وقت‘‘ کا اجراء کیا۔ بعدازاں نوائے وقت کی زمام کار ان کے برادر خورد مجید نظامی مرحوم و مغفور کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے پیشہ صحافت کی آبرو رکھی اور آبروئے صحافت کہلائے۔ جب سے اس کالج کی قیادت پروفیسر طاہر جاوید صاحب نے سنبھالی ہے اس روز سے کالج کی تمام سوسائٹیز فعال نظر آتی ہیں۔ پرنسپل طاہر جاوید صاحب راوین ہیں اور وہ کالج کو گورنمنٹ کالج لاہور کی مانند دیکھنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر طاہر جاوید صاحب نے ایک سو پچیس سالہ تقریبات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ 1992ء میں سو سالہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ درویش صفت وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں شہید نے اس کالج کی صد سالہ تقریبات کے لئے فیاضی اور کشادہ دلی کا ثبوت دیا اور فنڈز مہیا کئے۔ کالج میگزین کریسنٹ سپیشل شائع ہوا۔ اولڈ بوائز ڈائریکٹری طبع ہوئی‘ سوئینر بنائے گئے اور ڈاک ٹکٹ جاری کئے گئے۔ 125 سالہ تقریبات ان مشاہیر کے سلسلے میں انعقاد ہو گا۔ جن کا تعلق اس درس گاہ سے تھا۔ 2017ء کا سال تقریبات کا سال ہو گا۔ کانووکیشن ہو گا۔ صدر پاکستان عزت ماب ممنون حسین نے کانووکیشن میں شرکت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے اولڈ سٹوڈنٹس کو مدعو کیا جائے گا۔ اولڈ سٹوڈنٹس کے حوالے سے کریسنٹ کا خصوصی شمارہ منصہ شہود پر لایا جائے گا۔ اگر اس درس گاہ کے اولڈ سٹوڈنٹس اپنے زمانہ طالب علمی کے حوالے سے اپنے مضامین/ نگارشات بھیجنا چاہتے ہوں تو کریسنٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر منور مقبول عثمانی اور پروفیسر خالد رفیع شعبہ اردو سے رجوع و رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک شاندار تقریب سرسید احمد خان کے حوالے سے ہوئی۔ جس میں کلیدی مضمون سابق پرنسپل امجد علی شاکر نے پڑھا۔ محمد زاہد اعوان صاحب کی تقریر بھی قابل داد تھی۔ آنے والے دنوں میں چودھری رحمت علی جنہوں نے بزم شبلی میں مسلم علاقوں پر مشتمل ریاست کے حوالے سے باتیں کیں اور بعدازاں پاکستان کا نام بھی تجویز کیا‘ کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ 6جنوری 2016ء کو صدرپاکستان ممنون حسین صاحب نے اسلامیہ کالج پرنسپل طاہر جاوید‘ ان کے رفقائے کار اور طلبہ کو ایوان صدر میں مدعو کیا۔ پرنسپل صاحب نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے میزبان کالج کی تعمیر و ترقی کے لئے صدر پاکستان سے درخواست کی۔ پوسٹ گریجوایٹ بلاک کی تعمیر‘ ایڈیٹوریم‘ نئی لائبریری‘ کالج کی موجودہ عمارت کی تزئین و آرائش اور ریواز ہوسٹل کی بحالی کیلئے فنڈز درکار ہیں۔ آج کل مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ پاکستان کی اس بانی جماعت سے کالج میں ریسرچ سنٹر اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے کالج کے طلبہ‘ اساتذہ اور اہل علاقہ فنڈز کے منتظر ہیں۔ گزشتہ دنوں معروف ادیب و افسانہ نگار انتظار حسین کے حوالے سے کتاب ’’انتظار حسین‘ ایک عہد‘ ایک داستان علامہ عبدالستار عاصم صاحب سے موصول ہوئی‘‘۔ یہ کتاب انتظار حسین کی وفات پر لکھے جانے والے مضامین‘ ان کے کالموں اور ان کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اور قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل بینک سٹاپ والٹن اور مقبول اکیڈمی اردو بازار سے دستیاب ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024