دستار اور دوپٹہ
دستار، پگڑی مردانگی میں وقار اور احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں مثلاً دو قبلیوں میں قتل و غارت، دو قوموں میں جھگڑے گاہ بگاہ اسی پگڑی کیوجہ سے شروع ہوئے اور ان گنت لاشوں کے گرنے پر بھی ختم نہیں ہوئے۔ لوگ کہتے سنے گئے ہیں کہ وہاں پر ہماری پگڑی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ہمارے بزرگ کی بات نہیں مانی گئی۔ اگر کہیں پہ کوئی بزرگ دوفریقوں میں فیصلہ کررہا ہو تو صلح کےلئے وہ یہی لفظ بولتا ہے میری پگڑی کا خیال رکھو یا میری سفید ریش کو دیکھو۔ انسانی جسم میں مرد نے مردانگی کے تقدس اور عفت کےلئے ان دو پگڑی اور داڑھی کو وہ عفت بخشی ہے کہ اس کے احترام پہ جان و اولاد، مال جیسی قیمتی چیزیں بھی قربان کردیتا ہے۔ پگڑی کو سر پر اس ڈھنگ سے باندھا جاتا ہے کہ دو چار قدم جلدی سے چلنے پر پاﺅں کے ٹھڈے سے پگڑی نہیں گرتی کیونکہ اس کے پیچ کس کس کے باندھے جاتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کچھ لوگ کافی عرصہ تک ایک بار باندھی جانے والی پگڑی استعمال کرتے ہیں مثلاً دن کو پہنی اور رات کو اسی طرح اتار کر رکھ دی، صبح اٹھا کر پھر سر پہ سجالی۔ اگر کہیں بھیڑ میں کسی مرد کی پگڑی گر جائے تو جلدی سے دو تین آدمی جھکتے ہیں اور وہ پگڑی اٹھا کر برہنہ سر پہ سجا دیتے ہیں اور اسی طرح دوپٹہ بھی احترام آدمیت میں عورت کے سر پہ معاشرہ کے ہر فرد کےلئے مقدس ترین حجاب ہے جس کا احترام ہر مرد پہ فرض ہے جس نے دوپٹہ کا احترام نہیں کیا اس نے زندگی میں احترام نہیں پایا۔ نامکمل ہے وہ شخص جسے حجاب دوپٹہ سے آگہی نہیں، دوپٹہ سر پہ قائم بھی اس وقت تک رہتا ہے جب تک آنکھیں جھکی ہوں، سر بصورت حیاءتھوڑا سا نیچے ہو تو دوپٹہ سر پہ جما رہتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنا چہرہ مردوں کیطرح اٹھا کر چلے گی جونہی سر اوپر ہوگا دوپٹہ خود بخود سر سے سرکنا شروع کردیتا ہے۔ اگر وہی عورت کسی مرد سے ہاتھا پائی پہ اترآئے تو مرد پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے وہ اپنا دوپٹہ کھو چکی ہوتی ہے۔
میرا بیٹا عقیل عباس ایک دن سکول جانے سے انکار کررہا تھا۔ اس کی ماں نے پیار سے بار بار سکول جانے کا کہا مگر بچہ نہیں مانا۔ ماں قریب گئی اور بیٹے کو تھپڑ مارنا چاہا کہ بیٹا اچانک دوڑا، ماں نے دوچار قدم جلدی سے بھرے بیٹا تو نکل گیا مگر دوپٹہ گر گیا، دوپٹہ کے گرنے پر بیٹے کے لےے گالیاں، رائفل جی تھری کی طرح منہ سے نکلنے لگیں۔ جب میں شام کو گھر پہنچا تو محترمہ کو غصہ کی حالت میں دیکھ کر سہم گیا اور فرمانبرداری سے حال معلوم کرنے کی کوشش کی تو منہ کھل گیا۔ بیوی نے جھٹ سے کہا آپ کا لاڈلہ بھی آپ کی طرح ہے۔ آج میرا دوپٹہ گرادیا اس نے۔ مجھے بیٹے پر غصہ آیا۔ بیٹے کو بلایا تمام ماجرا سنا اور آخر میں کہا آپ نے ماں کا دوپٹہ کیوں گرایا تو میرا بیٹا پھوٹ پھوٹ ے رونے لگا اور کہا بابا میں تو اپنی پگڑی بچانے کے لےے دوڑا، ماں اگر ٹھہر جاتیں تو دوپٹہ بھی سر پہ قائم رہتا۔ مجھے غصہ میں تھوڑی سی ہنسی آئی اور میں نے ماں بیٹے میں صلح کرادی۔
گزشتہ دنوں سے میڈیا پر جو یلغار ہے کہ خاتون صحافی کو سپاہی کا تھپڑ لگ گیا۔ تھپڑ سے پہلے خاتون اینکر کی تمام خانہ مستور سے نکلی ہوئی ایکٹیوٹیز کو کیوں نہیں دہرایا جارہا ہے۔ اگر چشم بینا سے اس کلپ کو دیکھا جائے تو آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ ہماری اپنی بیوی بھی اس ڈھٹائی سے ہمارا بازو نہیں پکڑتی جس طرح اینکر پرسن نے ایک فورس کے مسلح جوان کا مسلح بازو پکڑا اور اسے مجبور کردیا اور اس کے ناک میں دم کردیا۔ ہاں وہ مختلف سوالات کرسکتی تھی تھوڑا فاصلہ پہ کھڑی ہوکر، اس جوان کو بھائی بول کر جبکہ فورس کے جوانوں کی محافظت میں جتنی مستورات ہوتی ہیں وہ انکی بہنیں ہیں اور محافظین بھائی۔ بہن اور بھائی میں رنجش بھی پیدا ہوجاتی ہیں، انہیں ان مقدس رشتوں کو قائم رکھتے ہوئے خوش اسلوبی کا مظاہرہ کرنا چاہےے تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭