نہ تم با ز آﺅ نہ ہم
شیخ صاحب اپنے گھرسے فرمائشوں کابڑا سا پٹارا لے کر پھو لے ہوئے پر س کے ساتھ خو شی خو شی گھر سے نکلے ۔ ابھی وہ با زار کی خوشبو سونگھ بھی نہ پا ئے تھے کہ اچا نک اجنبی شخص نہا یت خلو ص کے ساتھ آنا ً فاناً آکر ان سے بغل گیر ہو گیا ۔ شیخ صاحب انتہا ئی سٹپٹائے مگروہ آدمی اتنے مخلصانہ طر یقے سے آکر گلے لگا کہ جواباً شیخ صاحب کو بھی مخلصانہ جو ش دکھانا ہی پڑا ۔ اس بندے نے نہایت خلو ص کے سا تھ شیخ صا حب کی خیر یت دریا فت کی اورکسی زمانے کے عزیزی رفیق ہونے کا حوا لہ بھی دیا اور پھر بیوی بچو ں کی خیروعافیت معلوم کر کے ایک اور صاحب کی طرف اشارہ کرکے شیخ صا حب سے گرم جو شی سے ہا تھ ملا کر نہایت سر عت و عجت سے وہا ں سے روانہ ہو گیا ۔ شیخ صاحب نے جا ن بچنے پر اپنے مہر با ن اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر با زار کی طر ف رواں دواں ہو گئے ۔ سگر یٹ کے لئے جیب میں جو ہا تھ ڈالا توجیب خالی پائی۔ سٹپٹا کرجلدی جلدی اپنی تمام جیبیئں کھنگا لنے کی مشقت کی لیکن ۔۔ لا حا صل ۔۔۔ اس ظالم نے ذرا سی دیر میں ان کی تمام ہی جیبو ں میںصفائی کرڈالی تھی ۔حضرت کے پاس ایک ٹکا بھی نہ چھو ڑا سو منہ لٹکا کر پیر پٹختے ہو ئے گھر کی طرف اپنے گھر والو ں کی جھڑ کیاں سننے کیلئے روانہ ہو گئے ۔
یہ ایک دن کی رواداد ہے اگلے دن پھر عز م تا زہ کر کے خیر سے کسی کام کو گھر سے روانہ ہو ئے ۔ راستے میں اسی آدمی پر نظر پڑگئی ۔ شیخ صا حب نے دیکھتے ہی اپنی نا دیدہ آستین چڑھا ئیں ۔ اور اسکی طر ف دوڑ لگا دی ۔ اور اسے جا جکڑا گر یباں پکڑ کر کھنچتے ہوئے وہ جذباتی سے ہو گئے لیکن وہاں کی کیفیت انہیں بھی بھو نچنا کر گئی ۔ وہ شخص صاحب کے گلے لگ کر پھو ٹ پھو ٹ کر رونے لگا شیخ صا حب اپنا آپ بھو ل بھا ل اس شخص کے آنسو پو نچھنے لگے ۔ وہ شخص نہا یت گھمبیر لہجے میں گو یا ہو ا ،، کل آپ کے سا تھ میں نے بہت بڑی زیا دتی کی تھی سو اللہ تعالی نے مجھے فو راً تھپڑ ما ر دیا ۔ جب میں گھر پہنچا تو میری چھو ٹی بچی کی لاش مکا فا ت عمل کی صورت میں میری منتظر تھی لہٰذا صبح ہو تے ہی میں آپ کو ڈھو نڈنے اور معافی طلب کرنے میں یہا ں پہنچ گیا اس آدمی کی کیفیت دیکھ کر شیخ صاحب اپنا ساراغم والم فرامو ش کرگئے اور لگے اس آدمی کے آنسو پو چنے میں تھوڑی دیر تسلی و تششفی کے بعد دونو ں اپنے اپنے راستے روانہ ہو گئے ۔ با زار پہنچ کر شیخ صاحب نے اپنی جیپ میں ہا تھ ڈالا تو پتہ چلا کہ پچھلے سو ٹ کی طرح اس سو ٹ کی جیپب بھی خالی تھی ۔ دونو ں ہا تھو ں سے اپنا سر پٹ کر شیخ صاحب نے پھر واپسی اپنے گھر کی راہ لی ۔
تیسر ے دن صا حب بہادر اپنی نئی ہنڈا موٹر سا ئیکل پر بیٹھ کرسینہ پھلا کر گھر سے آفس جانے کیلئے نکلے ۔ راستے میں پھر اسی شخص پر نظر پڑ گئی ۔ فٹافٹ موٹر سائیکل پر سے اتر ے اور جاکر اس بندے کی گردن ناپ لی وہ بندہ معافیوں تلا فیو ں پر اتر آیااور اپنی ساری جیبیں خا لی کردیں اور شیخ صاحب سے کہا کہ وہ ان کے سارے پیسے واپس کر نے آیا تھا اور اسی لئے وہ یہ سارے پیسے لئے گھو م رہا تھا اس نے شیخ صاحب نے معافی مانگی اور پھر صلح کی خو شی میں ہا تھ پکڑ کر گھسیٹ کر چا ئے پلا نے لے گیا چا ئے پی کر شیخ صا حب فخریہ چائے خا نے سے نکلے اور اپنی مو ٹر سائیکل کی طر ف روانہ ہو گئے پتہ چلا کہ اب کی بار ان کے سا تھ نیا ہاتھ ہو گیا ۔۔۔ ان کی موٹرسائیکل غائب تھی ۔
آپ لو گو ںکو ہنسی بھی آئی ہو گی اور اکثر تو غصے سے تلملا کر رہ گئے ہو نگے کہ ایسی بھی کیا معصو میت ایک ہی بندے سے تین تین بار بے وقوف بننا کسی صاحب عقل آدمی کو زیب نہیں دیتا ۔ لیکن۔۔۔ ٹھہریئے ۔۔۔۔۔۔ذرا سوچئے ۔۔۔۔۔ یہ صاحب کچھ ہماری اجتما عی سو چ کو ظاہر نہیں کرتے ؟ ہماری اجتما عی اصلیت پر سے پر دہ تو نہیں اٹھا تے ؟بہت عجیب سی بات لگی نا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ذرا سو چئے مو جو دہ حکو مت کے تینوں ادوار کو بھی یا د کیجئے کچھ سمجھ آیا نہ نہیں ۔۔ ۔۔ یعنی تھو ڑی سی وضا حت ضروری ہے ؟ چلئے ذرا سی وضا حت بھی ہو جا ئے ۔
پیپلز پارٹی کے دور میں بی بی شہید کے عہد میں بھارتی وزیر اعظم پاکستان تشر یف لاتے ہیں پو ر ے اسلا م آبا د سے کشمیر نا م کے تما م بور ڈ غائب ہوجاتے ہیں ان کی طبع نازک پر کشمیر کا نام گراں گزرتا ہے لہٰذا اس سے ہم کیا سمجھے ۔
نو ازشر یف کے دور میں عامل کانسی جس پرپاکستان میں کوئی مقدمہ بھی نہ تھا ۔ اس کو پکڑ کر امر یکا کو پیش کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہا ں ریمنڈ ڈیوس نا می امر یکن غنڈہ وحشت و بر بریت پھیلا کر نہا یت ہی آراستہ طشت میں بٹھا کر واپس امریکا روانہ کر دیا جا تا ہے دونو ں آنے والی حکو متیں عافیہ صدیقی کے معا ملے میں عوام سے خو ب وعدے وعید کر تی ہیں اور حکو مت و عوام سے کھیلنے اور مال بنا تے ہو ئے روانہ ہو جا تی ہیں یعنی کہ اب بھی کچھ سمجھے کہ نہیں کا فی مدت پہلے ہماری کرنسی کی قیمت انڈیا کی کرنسی سے دوگنی تھی اور اب حکو متوں پر حکو متیں آئی گئیں آج ہماری با ری کل تمہا ری باری پھرپر سوں تر سوں ہماری تمہاری اولا د کی باری آج ہم کھا رہے ہیں کل تم کھا ﺅ گے کے مصداق اب ہماری کر نسی سے انڈین کی کرنسی دوگنی ہو چکی ہے ہماری محبوب حکو مت کے زما نے میں دس روپے کا سکہ بھی سب لو گو ںکی نظروں کے سامنے جگمگا نے لگا ۔
دونو ں حکو متیں جب اقتدار میں ہو تی ہیں تو پاکستان کے تمام ہی نفع بخش اداروں کو ،،عوام اور ملک کے مفاد میں،، بیچ بیچ کر اپنے اور اپنے حا لیو ںاور موالیو ں کے خا لی پیٹ بھر نے کی خو اہش میں بے تا ب رہتی ہیں اور حکومت سے باہر آتے ہی انہیں ان اداروں کی افادیت سمجھ میں آجا تی ہے ۔
اقوام متحدہ میںہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم نے بہت بہترین طر یقے سے نہا یت خو بصو رت تقریر کی نہا یت جاندار طر یقے سے پاکستان کا نقطہ نظر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا آخرکیوں ؟جب کہ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہو چکا ہے اس کا کھرا کہاں نکلتا ہے،،را ،، کا نام سامنے نہیں آتا بلو چستان میں افغانستان کے تعاون سے کیا کچھ اُدھم مچا ئے رکھا ہے وہ بھی نظر نہیں آرہا ، کل بھوشن ،، کانام تو زبان سے ادا ہی نہیں ہوسکتا لیکن کشمیر پر ہماری قابل فخر فو ج شہید کے بھا ئی اور مو جو دہ قابل فخرکپتان مستقل فون پر آنکھیں دکھارہے تھے کہ کشمیر پر اسٹینڈ لو ۔۔۔ورنہ ۔۔
ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے بھارت کو اسی زبان میںجوا ب دینے کیلئے میرے عزیزی مجیدی نظامی نو از شریف سے فرماتے ہیں کہ آپ بھی دھما کہ کر دیجئے ورنہ قوم آپ کادھماکہ کردے گی چاروں طر ف سے زور پڑا تو وہ دھما کہ بھی ہوگیا جس سے ہمارا عزیز ملک سر اونچا کئے کھڑا ہے ۔
©اپنے آپ کو مکتی با ہمی کا یک عام کارکن ظاہر کر کے ہمارے ملک پاکستان کو دولخت کر نے کا منصو بہ پا یہ تکمیل کو پہنچا دینے کا بر سر عام اعلا ن کر نےوالے شخص کو انڈیا میں گجرات میںعام غر یب مسلمانوں کو قصائیوں کی طر ح تہہ تیغ کر دینے والے شخص کو ہمارا وقت کا وزیر اعظم ہماری نظر وں کے سامنے اس کے چیلے چا نٹوں سمیت بغیر ویزے کے اپنے ذاتی دوست کی حیثیت سے بلا تا ہے ۔ اوراپنی نو اسی کی شادی میں شرکت کا دعوت نا مہ بھیجتا ہے اور ہم خا موش بیٹھے تا لیاں بجارہے ہیں ۔
اب پھر سے دوسری حکو مت کو منظر عام پر لائیے وزیراعظم جب شہید ہو تی ہیں تو عقدہ کھلتا ہے کہ وہ میرے محل جس کی ملکیت کی وہ انکاری تھیں اب اس کی وراثت ان کے شوہر کو منتقل ہو جا تی ہے ان کے دوسرے وزیر اعظم جب ترکی کی خا تون اول اپنا منہ دکھا ئی کا ہاربے کس لڑکیوں کے جہیز کیلئے دیتی ہیں تو وہ ہار بھی ان سید وزیر اعظم کی جیب کی زینت بن جاتا ہے
ان دونو ں حکو متوں ، انکے وزراء، انکے مشیر ، انکے ارکا ن اسمبلیو ں کے بارے میں تھو ڑا سا گہر ائی میں جا کر غو ر کیجئے ۔ یہ سب جہا ں جہاں سے ووٹ لیتے ہیں ان جگہو ں کی جاکر تھو ڑی سی معلو مات تو کریں ۔ وہا ں پر ان سارے لوگو ں ان کے رشتہ داروں کی شاہ خر چیاں ان کے خدا بننے کی کیفیا ت بھی ملا حظہ کر یں ان دونو ں حکو متوں کے ارکان کی جرائم پیشہ اشخا ص کے ساتھ ربط ورتعلق کی نوعیتوںپر بھی ذرا سا غور کریں ۔ اور پھر تمہید میں موجود لطیفہ پرشیخ صاحب کے کردار پر بھی غو ر کریں اور اپنے آپ کو اس سانچے میں ر کھ کر ذرا دیکھئے ۔