27 اکتوبر 1947ء کا دن اسلامیان کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب بھارت کے نوخیز برہمنی سامراج نے برصغیر کی تقسیم کے مسلمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش اور منافقت سے کام لیکر غالب مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ تسلط اور قبضہ جمالیا تھا برصغیر کی تقسیم اس اصول کی بنیاد پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے اور غیر مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کیساتھ، جبکہ ریاستوں کے بارے میں یہ اصول طے پایا تھا کہ انکے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے انکی غالب اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر کو جو اپنے جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے، بہر صورت پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا لیکن بھارتی سامراج نے چونکہ پاکستان کے قیام کو دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا اور جدید بھارت کے بانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان سے کچھ ہی عرصہ پہلے 1946ء میں ایک برطانوی ڈپلومیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم اس وقت تو مسٹر جناح کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرلیں گے لیکن پھر بتدریج ان کیلئے ایسے ’’حالات‘‘ پیدا کردینگے کہ وہ خود ہم سے یہ درخواست کریں کہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کردیا جائے اور واقعہ یہ ہے کہ کشمیر پر بھارت غاصبانہ تسلط کا مقصد پاکستان کیلئے یہی مخصوص ( حالات) پیدا کرنا ہیں اس لئے کہ پاکستان کی زرعی اور اقتصادی معیشت کا تمام سر دارومدار کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کے پانی پر ہے اور اپنے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے کشمیر دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کیلئے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے یوں کشمیر پر قبضے کی سازش دراصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کیخلاف بھارت کے جارحانہ سامراجی عزائم کی علامت بھی ہے اور نقطہ آغاز بھی، کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن اور محل و قوع کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والا انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے۔ کیونکہ
٭ ریاست جموں و کشمیر کی 87 فیصد آباد مسلمان ہے تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق اسے ہرحال میں پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے۔٭ ریاست جموں و کشمیر کی سات سو میل لمبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔ جبکہ بھارت سے ملنے والی سرحد کی لمبائی دو سو کلو میٹر ہے۔ جس میں چند میل کے میدانی علاقہ کو چھوڑ کر باقی تمام سرحد نا قابل عبور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ ریاست جموں و کمشر کی تینوں اکائیزں جموں، کشمیر اور شمالی عالقہ جات (گلگت، بلستان، لداخ) براہ راست پاکستان سے منسلک ہے۔ جبکہ بھارت کے ساتھ صرف جموں کا مختصر علاقہ ملتا ہے۔
انہی وجوہات کی بنا پر ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعہ وہاں کے راجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا تھا کہ ریاست کا الحاق پابکستان سے کردیا جائے لیکن اس معزول اور مفرور راجہ نے ریاست سے بھاگ کر دہلی کے حکمرانوں کے قدموں میں بیٹھ کر بغیر کسی بھی اخلاقی جواز کے ریاست کا غیر قانونی نام نہاد الحاق بھارت سے کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ جسے ریاست کے عوام نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ان حالات میں کشمیر پر غاصبانہ تسلط کے بعد بھارتی سامراج کو اندازہ ہوا کہ جب تک کشمیر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے او ر ان کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب و تاریخ سے باقی ہے اس وقت تک اسلام یک اس سرزمین پر اسکے غاصبانہ قبضے کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کی غالب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے 1965,1947 اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے مواقع پر لاکھوں کی تعداد میں فرزندان اسلام کو شہید کردیا گیا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو ہجرت کر کے آزاد کشمیر اور پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی طرح مسلمانوں کی تعداد کو مزید کم کرنے کیلئے ان میں بڑے پیمانے پر خاندانی منصوبہ بندی کو رواج دیا جا رہا ہے۔ نیز مختلف حیلوں بہانوں سے بھارت کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں ہندوئوں کو ریاست میں لاکر بسانے کا سلسلہ اس کے علاوہ ہے چنانچہ یہ ان ہی ہتھکنڈوں کا نتیجہ ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی بقول سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ جی ایم شاہ 87 فیصد سے کم ہو کر 51 فیصد تک رہ گئی ہے۔ اسی طرح اسلامیان کشمیر کا اسلام اور اسلامی تہذیبی سے تعلق منقطع کرنے اور ان کے دینی اور ملی تشخص کو ختم کر کے انہیں ہندوستانی تہذیب اور قومیت میں جذب کرنے کیلئے بھی مسلسل سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری ہے اس مقصد کیلئے ان پر ایک ایسا نظام تعلیم مسلط کردیا گیا ہے جو متحدہ ہندوستانی تہذیب و قومیت، بھارت کے قدیم دیومالائی قصوں کہانیوں اور مغرب کے لادینی فلسفوں پر مشتمل ہے۔مختصر یہ کہ اسلامیان کشمیر کی غالب اکثریت کو اقلیت میں بدلنے انہیں انکے دین و تہذیب اور جداگانہ ملی تشحص سے بیگانہ کر کے بھارتی تہذیب و قومیت کا حصہ بنانے اور انکے جذبہ آزادی کو کچلنے کیلئے سامراج ہتھکنڈوں کا ایک لامتناہی سلسلہ گزشتہ پچاس سال سے اہتمام سے جاری ہے اور یہ مسلمانان کشمیر کی بد قسمتی ہے کہ بھارت کو ان کیخلاف ان سازشی، ہتھکنڈوں پر عمل در آمد کیلئے اس سارے عرصے میں آلہ کار خودان کے اندر سے مل جاتے رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ سے لیکر انکے بیٹے فاروق عبداللہ تک غداران ملت کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ان دونوں باپ بیٹے کے علاوہ بخشی غلام محمد، جی ایم صادق، میر قاسم، جی ایم شاہ، مفتی سعید اور کئی دوسرے نام آتے ہیں۔ آج مقبوضہ کشمیر میں اسلام اور آزادی کی علمبردار قوتیں اپنی آزادی اور حق خودار ادیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاء و سالمیت اور تکمیل پاکستان کی جنگ بھی لڑ رہی ہیں۔مجاہدین جموں و کشمیر پاکستان کی شہ رگ کو بھارت سے چھڑانے کیلئے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو قربان کر رہے ہیں۔ یہ جنگ کشمیریوں کی نہیں بلکہ پاکستان اور عالم اسلام کے دفاع اور سالمیت کی جنگ ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام حکومت پاکستان اور پوری قوم کشمیری مجاہدین کی عملی امداد کرے اور طرح سے سیاسی، سفارتی اور فوجی امداد دی جائے۔ اگر اب بھی کشمیری مجاہدین کا ساتھ نہ دیا گیا۔ تو کبھی بھی بھی اپنی شہ رگ کو بھارتی پنجہ استبداد سے نہیں چھڑاسکیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024