ہر سال دس ذوالحج کو مسلمان دنیا کے جس بھی کونے میں ہیں سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے عیدالاضحی بڑے اہتمام اور تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ 57اسلامی ممالک اور دنیا میں دیگر ممالک میں موجود فرزندِ توحید اس روز کروڑوں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ خدا کے ہاں ہماری دی ہوئی قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ قربانی کے جانوروں کی خریداری کی قیمت اور دیگر اخراجات پہنچتے ہیں۔ اللہ کے حضور تو قربانی کرنے والے کے خلوصِ نیت کا حساب ہوتا ہے۔ قربانی کا فلسفہ ہی ایثار اور دوسروں کے لیے خود کو وقف کر دینا ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا کہ
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
یوں تو ہم بطور معاشرہ اخوت و بھائی چارے کے شدید فقدان سے دوچار ہیں۔ ہر طرف ایک افراتفری اور انارکی کی کیفیت ہے لیکن سب سے زیادہ انتشار اور نفاق ہمیں سیاست میں نظر آتا ہے۔ ہم جمہوریت کو بہترین سسٹم گردانتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم جن کی نقالی کرتے ہیں ان کی دیگر اقدار کو فالو نہیں کرتے۔ اوباما کے پیش رو جارج ڈبلیو بش کی جیت کا اعلان امریکی سپریم کورٹ نے ایک تنازع کے بعد کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے بش کے حق میں فیصلے پر الگور کو شدید تحفظات تھے لیکن ان کی زبان پر بھی حرف شکایت نہ آیا۔ الگور کا کہنا تھا کہ زیادتی میرے ساتھ ہوئی اس کا خمیازہ پوری قوم کیوں بھگتے۔ ہمارے ہاں ایسے ایثار کا مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
قیام پاکستان خصوصی طور پر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے کھیل میں ایسے مگن ہوئے کہ اب تک اس میدان میں بہت سی جدتیں پیداکر چکے ہیں۔ الزامات سے بات شروع ہوتی ہے تو دشنام اور گالم گلوچ سے بھی آگے جاتے ہوئے دست و گریباں تک پہنچ جاتی ہے۔ پارلیمنٹ اکثر اوقات مچھلی منڈی کا نقشہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر متحد ہوتے ہیں نہ پارلیمنٹ کے باہر کسی معاملے پر متفق ہوتے ہیں۔ صبر، برداشت اور تحمل دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اخوت اور بھائی چارہ تو بہت دور کی بات ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز دیکھ لیجیے، سیاستدان اینکرز کے اشاروں پر ایک دوسرے کے ساتھ الجھ پڑتے ہیں۔ بدزبانی تو معمول ہے ایک دوسرے پر جھپٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وہ ٹی وی پر تو شایدایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اپنے پارٹی قائدین کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے واویلا کرتے ہیں لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ لوگ ایسی بدکلامی اور دھینگا مشتی سے کیا اثر لیں گے؟ سیاستدانوں میں نہ صرف مخالف فریق کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں بلکہ پارٹی کے اندر بھی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ پارٹی قائد کو اپنے ہی پارٹی کے رہنماﺅں کی اختلافی رائے لڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات پارٹی کے لیڈروں کو کسی جلسے، میٹنگ یا اجلاس میں بھرپور پذیرائی نہ ملے تو وہ اِدھر اُدھر کے الزامات لگا کر دوسری پارٹی میں ہجرت کر جاتے ہیںیا اپنا الگ سے دھڑا بنا لیتے ہیں۔ آج دھڑا بندیوں میں بٹتی بٹتی سیاسی جماعتوں کی تعداد136ہو چکی ہے۔ جمہوریت میں ہم جن ممالک کی نقالی یا تقلید کرتے ہیں ان میں امریکہ اور برطانیہ سہرفہرست ہیں۔ ان دونوں ممالک میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد دو، دو سے زیادہ نہیں۔ برطانیہ میں لیبر اور کنزرویٹو کے علاوہ چھوٹی سی پارٹی ٹوری ہے۔ اس کو برطانوی سیاست میں کبھی اہم کردار نہیں ملا۔ آپ دیگر ترقی یافتہ کو دیکھ لیجئے۔ فرانس، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا سمیت بہت سے ممالک میں دوجماعتی سسٹم ہے۔یہ کثیرالکثیر جماعتی سسٹم ہم پاکستانیوں کے نصیب میں ہی لکھا ہے۔ اس کی بڑی اور واحد وجہ عدم برداشت ہے۔ ایک طرف ہم ہر سال عیدقربان پر ایثار اور قربانی کا درس دیتے اور سنتے ہیں دوسری طرف ہمارے سیاسی رویوں سے اس کی نفی ہوتی ہے۔کیا ہمارے سیاستدان فلسفہ قربانی سے رہنمائی لیتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے ایثار کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ایک ایثار کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو یقین مانیے ہماری سیاست کی سمت درست ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024