آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

تحریر : ڈاکٹر زرقانسیم غالب 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ سکیں کیونکہ ہمارے من مندر میں اس شخصیت کا مقام اتنا بلند و بالا ہوتا ہے کہ الفاظ کم پڑنے لگتے ہیں کچھ ایسی ہی کیفیت راقمہ کی ہو جاتی ہے جب کسی کو دل کے نہا خانوں میں وہ بلند مقام پر براجمان کر دیتی ہے میری عقیدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ تب نہ بولا جاتا ہے نہ لکھ پاتی ہوں 
محترم جبار مرزا کی شخصیت کا حصار ایسا ہی ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب بندی خدا نے فیس بک پر آپ کے کلام نثر کو پڑھنا شروع کیا اور آپ کی وجاہت کا سحر بڑی بڑی موچھیں دراز قد گرجدار آواز مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کی خوبصورتی نے مرعوب کیا ایک روز بڑی ہمت کر کے آپ سے فیس بک میسینجر پر آپ کا وٹس اپ نمبر مانگ لیا نہایت ادب و احترام سے میری خوش بختی نمبر مل گیا اب وٹس اپ اور میسینجر دو راستے تھے گفتگو کرنے کے مجھے آپ کی کتابوں کو پڑھنا تھا احباب آپ بخوبی اس کملی کی عادات سے واقف ہیں خاموش رہ کر محسوس کرنا پھر اپنے قلم سے تحریر کرنا اور اپنے مہربان احباب کی بصارتوں کی نذر کر دینا یہ میرے دل کی کیفیت ہوتی ہے جو بیان کرتی ہوں میں نے ہمیشہ محترم جبار مرزا کو ایک شفیق نرم دل احساس و مروت کے ساتھ ساتھ کردار کا غازی پایا بڑے عرصہ سے آپ پر کچھ کہنے کی جسارت کرنا چاہ رہی تھی ہمت و حوصلہ پیدا کررہی تھی اس پر وہی بات کہ جس شخصیت پر آپ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لفظ بھاگ جاتے ہیں شائید وہ بھی ہماری اس عقیدت کی تاب نہیں لا پاتے اور یوں یہ کملی زم زم کی کیفیت سے گزرتی ہے رک بھی جاتی ہے اور بہنا بھی چاہتی ہے 
ایک دن آپ کو کال کی اور آپ سے آپ کی نادر تخلیقات کو پانے کی جسارت کر بیٹھی آپ نے وسیع قلب و نظر کا مظاہرہ کیا جیسے بڑی شخصیات کرتی ہیں جو خود میں بلند اور بھرے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو کبھی پست نہیں کرتے نہ ہلکا جانتے یہ تو ہلکے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو ہلکا سمجھتے ہیں آپ نے پوسٹل ایڈریس مانگا اور کتب ارسال کر دیں احباب پہلی کیفیت ہی کچھ کم نہ تھی کہ کتابوں کو پا کر جو مسرت ہوئی کہنے سے قاصر ہوں اس عزت افزائی پر سجدہ ریز ہوئی اور ڈھیر ساری دعائیں آپ کی درازی عمر صحت و عزت کی کیں ملنے کی خواہش بڑھنے لگی اللہ بھی ساتھ دیتا ہے جب اپ کچھ سچے دل سے مانگیں ایسا ہی ہوا ایک روز میں اور قاضی بابا ڈاکٹر وقار نیاز کے ساتھ تقریب میں مدعو تھے الحمرا ادبی بیٹھک میں بھی تقریب چل رہی تھی ہم دوسرے ہال میں تھے باہر نکلے تو محترم جبار مرزا اپنی پوری ادبی انسانی شان و شوکت سے بلند قامت بڑی بڑی موچھیں بالوں کا الگ انداز اور روشن چہرہ لیے ہمیں مل گئے قاضی بابا اور بندی خدا کی حالت اس وقت کیا تھی یہ وہ اپنی ایک تحریر میں بیان کر چکے ہیں ہم نے آپ کے دست مبارک کو پکڑ لیا اور بے ساختہ بوسے دیتے رہے جیسے جب کوئی نورانی روحانی بزرگ ہستی کے ملنے پر اظہار عقیدت ہوتا ہے محترم جبار مرزا کو اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا تھوڑا سنبھلتے ہوئے ایک ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے قاضی بابا کو گلے لگایا میں پھر اللہ سے باتیں کرنے لگی یااللہ آپ نے کیسی کیسی ہستیاں پیدا کی ہیں کہ جن میں فرشتوں کا گمان ہوتا ہے ان میں محترم جبار مرزا کا کردار ہے
راقمہ اسی وقت کتاب پر کچھ کہتی ہے جب کتاب پڑھتی ہے اور کتاب پڑھنا میرا شوق جنون ہے 
آپ کی کتب کا مطالعہ پچھلے کچھ عرصہ سے کر رہی ہوں ہر کتاب کے ہر ہر پنے پر کتاب لکھی جا سکتی ہے میرا اللہ توفیق دے کچھ لکھ سکوں آج کی تحریر کی یہ سطور شائید میری گم سم سی کیفیت قارئین کے دل میں اتر جائے اب جوحالت ہے آپ کی نذر ہے 
شخصیت پر لکھوں، بیوی سے دیوانہ وار محبت پر یا اس کردار پر جو چاہے جانے کے قابل ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا میری عقل وہاں ختم ہو جاتی ہے لفظ کہیں کھو جاتے ہیں جب کبھی ایسی خداداد صلاحیتوں کے مالک کے لیے کہنا ہو اب زلف پریشاں کی طرح سوچوں میں ڈوبی بظاہر سمٹی باطن میں بکھری بکھری چل رہی ہوں کبھی کوئی کتاب اٹھاتی ہوں تو کبھی کوئی "ٹوٹ کے بکھرا نہیں" دو ایڈیشن میرے پاس ہیں بار بار کتاب پکڑتی ہوں صفحے پلٹنا شروع کر دیتی ہوں تسلسل سے پڑھنا میرے بس میں نہیں مجھے اچھا خاصہ وقت درکار ہے ان پیار کرنے والوں کی کہانی ایک عورت کی وفا مرد کی سچائی بیان کرنا کوئی سہل مرحلہ نہیں پوری ایک کہانی ہے جس میں کءدہائیاں بسر ہیں کتاب کے ہر پنے پر دستک دیتی دل کی بے قراریاں ایک ایک جملے میں مچلتے ارمان ڈھلتے وقت کی شامیں چڑھتی محبت کی رنگینیاں اف۔۔۔۔۔ کس کس پہلو پہ رقم کروں بندی خدا تو کملی ہے کہاں جھیل پائے گی ان وفاوں محبتوں کی گرمیاں ٹوٹتی سانسوں کی ڈور اور اس ہنسوں کی جوڑی کا جدا ہونا جسے قضا بھی مات نہ دے سکی وہ تو خود میں شرمندہ ہوگی کہ کہاں آئی اور بدن تو جدا کر گئی روحیں جدا نہ کر پائی وہ تو آج تک ساتھ ہیں اس محبت کی کہانی پر کہانی پھر سہی 
اب دوستی کاحق نبھانا تو سیکھو ساتھیوں زرا ایک کردار میں چھپے کئی خوبصورت کردار دیکھو تو سہی کیا آج بھی ایسے لوگ ملتے ہیں بندی بچپن سے خیالوں کی دنیا میں کھوئی رہتی تھی جب کوئی دوستی کی پاسداری پڑھنی

پہل اس نے کی تھی چودھرانی کی کہانی پوری پڑھنی ہے سمجھنا ہے دیکھنا ہے کہ کہاں سے سلسلہ شروع ہوا اور رانی تک کیسے پہنچا 
احباب کیا لکھوں ہر کتاب کا پنے پر ایک الگ جہان آباد ہے جس میں کءجہانوں کی داستانیں رقم ہیں جن کا پڑھنا آج کے ہر بشر کے لیے از حد ضروری ہے 
کیوں کہہ رہی ہوں پڑھو دیکھو تو قلمکار نے اپنے خلوص کے جوہر کیسے لفظوں میں پرو کر حقیقت کے وہ خوبصورت رنگ بھرے ہیں جو قاری کو پڑھتے اسی وادی میں لے جاتے جہاں سے راقم نے لکھنا شروع کیا راقمہ تو انجان ہے پہلے ہی عرض کر چکی کملی ہے اوردیوانی بھی ان تمام کی جو کردار میں شرافت بول میں صداقت لیے معاشرے کو اپنی محبتوں کی سچائیوں سے دل کی گہرائیوں سے روح میں اترنے والی چڑھائیوں سے اور ان خوشبووں سے دیے کی اس لو سے جو اپنی لو کی آنچ کی تپش دیے کی مٹی کی ٹھنڈک مٹی سے اٹھنے والی خوشبو لو سے پھیلنے والی روشنی اور تپش سے حرارتوں کے گوہر جو بے جان جسموں کو بھی زندہ کردیں
محترم جبار مرزا جیسے مصنف کہاں روز روز پیدا ہوتے ہیں یہاں محترم الطاف حسن قریشی کا ذکر خیر بھی کرتی چلوں جب آپ کی تخلیق پڑھتی ہوں ڈوبتی جاتی ہوں آپ کے تاثرات محترم جبار مرزا کی کتاب "مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری" پڑھ کر مسرت کے ساتھ صد افتخار بھی ہوا کہ کیسے وسیع قلب و نظر کے مالک شخصیات ایک دوسرے کے فن کا اعتراف کرتے ہیں سراہتے بھی خوب ہیں راقمہ کی تحریر محترم جبار مرزا کی شخصیت، محبت اور کام کے حوالے سے کہاں مکمل ہو سکتی ہے کہ زرقا تجھے درکار ابھی بہت وقت ہے یہاں تک پہنچنے کے لیے تو خوش قسمت ہے جو ان کے عہد میں نہ صرف سانس لے رہی ہے مل بھی رہی ہے دیکھ رہی ہے پڑھ رہی ہے یہ شخصیات تیرے روحانی استاد تو ہیں ہی پدری دست شفقت بھی رکھتے ہیں اللہ ان کی حیات خضر کی حیات ہو ان کی خیر ہو صحت ان کی جاگیر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن