ڈاکٹر طاہر بھلر
آج چالیس دن بعد جب غزہ میں انسانی لاشوں کا ڈھیرہر اندھے کو بھی نظر آرہا ہے، امیر قطر نے دیر آئد درست آئد کے تحت عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی طرح صدر بائڈن سے غزہ کے حوالے سے مدد مانگی ہے ۔ قارین کو معلوم ہو گا کہ اسلامی اور عرب لیگ کا اجلاس بے وقعتی بے وقتی اور بلا کسی نتیجے کے ختم ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ مصر کے صدر نا صر کی وفات کے بعد ، اور سادات کے اسرائیل کے دورے اور اسرائیلی پالیمنٹ کنیسٹ میں انیس سو ستتر کے کے خطاب کے بعد عرب لیگ اور عرب اتحاد عملی طور پرختم ہو گیا تھا اور شاہ فیصل اور بٹھو کے قتل اور پھانسی میں بینالقوامی سازش اور مجوزہ امریکی سازش ہونے کے باوصف اسلامی کانفرنس کا ستر کی دہائی میں اپنا اثر و رسوخ ختم ہو چکا تھا ورنہ مصر رفاع کا بارڈر کب کا کھول دیتا اور غزہ کے محصورین کب کے اس بارڈر سے گزر کراپنی جانیں بچا نے یا کم از کم اپنی تکالیف ، میں ہمسایہ ملک مصر کی مدد سے کچھ جائے امان مل جاتی ۔ آج اگر مصر کے صدر مرسی کو امریکا اقتدار سے محروم نہ کرتا اور اس کی امرکا سرکار کی حکم عدولی کی سزا کے بدلے جیل میں نہ ڈالتا تو آج غزہ میں آج اتنی بے بسی نظر نہ آتی ۔ آج غزہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہمارے نومولود بچوں ، عورتوں کو تو بخش دو ، ہمارے ہسپتالوں کو ٹینکوں اور بمباری سے ہی کوئی چھڑائے شائد۔ غزہ میں ہسپتال میں علاج کرنے والے ڈاکٹروں تک کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ملبے کا ڈھیر تو وہ کب کا بن چکا ، کیا کچھ نسل کشی میں کسر باقی رہ گہی ہے۔اب تو ما بدولت فرانس کے صدر کو بھی بڑی دور کی سوجھی ہے کہ اسرائل سے یہ اپیل کر دی ہے کہ بچوں اور عورتوں کا قتل عام نہ کرو بھئی اورٹینک اور جہازوں کی بمباری سے غزہ کے ہسپتالوں کامحاصرہ بند کر دو۔لیکن ائے مغربی دنیا کے دانشورو ، اہل اقتدار، یہ وقت صدا رہنے کا نہیں، وقت کا پہہہ اور مکافات عمل ہر ذی شعور ہر قوم اور سپر طاقت کو ضرور کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ بچو اس وقت سے کہ غزہ کے مظلوموں کی آئیں ، ان کی سسکیاں ان کی نفرت اور انتقام اتنی شدت سے نہ بدل جائیں کہ پھر کسی کو کوئی جائے امان نہ ملے ۔ میڈیا میں غزہ کے مظلوموں کی بے بسی کسی کو نظر نہیں آرہی جسے دیکھ کر کلیجہ خون کے آنسو رورہا ہے ۔ آج دنیا کا ہر فرد یورپ اور امریکا صیہونی ریاست کی اندھی حمائت نہیں بھول پائے گا کاش آج بھی امریکی اپنے اثر کو استعمال کرتے ہوئے قتل عام کرتے ہوئے درندے اسرائل کے پاوئں میں زنجیریں ڈال دیں۔ کہ تاریخ میں نہ ہلاکو ، نہ چنگیز خان، نہ ہٹلر نہ موشے دایان اور ان کے سرپرست امریکا نے بچنا ہے ، یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔ نہ روس کے زار بچے نہ روسی کمیونزم بچا، سو امریکی سامراجئیت کیسے بچ پائے گی۔ ڈیڈ ارب دنیا کے مسلمانوں کے ذرائع اتنے بھی کم نہیں تھے کہ وہ اس حیوانی طاقت کے پاﺅں نہ روک سکتے ۔ لڑنے کے لئے ہر چیز عمارت ، بڑی بلڈنگز ، سرمایہ نہیں ہوا کرتا بقول صلاحدین ایوبی صرف غیرت ہی درکار ہوتی ہے وسائل خود بخود پیدا ہوتے ہیں۔آج ہم واپس آںحضرت کے دور میں جانے پر مجبور نہیں ، فخر مخسوس کر رہے ہیں کہ انہوں نے صرف غیرت، جذبہ ایمان سے اس وقت کی بظاہر ترقی یافتہ تمام قوموں کو زیر کیا صرف جہاد سے ، خدا کی راہ میں موت کو گلے لگانے کی خوہش سے، کہ ایک وقت کی روٹی کے بعد دوسری وقت کی روٹی کا ہمارے اکابرین نے کبھی سوچا نہ تھا ۔ کیا ؒ آج کے اس دور میں پھر کسی کو امت مسلمہ کا امتحان مقصود ہے، کیا جہادکا وقت نہیں آ پہنچ چکا کیا مسلم امہ کو قتال کا سوچنا اب جرم ہو گا نہیں اب نہیں اتنی بے رحمی دیکھ کر کہ اب تو بہت ہو چکااب اور کونسی قیامت آنی ہے۔ اب تو غزہ کے راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں کوئی شعلہ ، نہ چنگاری ہے۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔بقول کسے ان آنسووں کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا جن انسووں سے ہم نے فسانے بنا لئے، اور بقول شاعر
وہ آئے ہیں میری لاش پہ اب تجھے ائے زندگی لاﺅں کہہاں سے
کیا امریکی صدر ٹرومین جو روز ویلٹ کے اچانک دماغ کی شریان پھٹنے سے مرنے کی وجہ سے نامزد صدر بننے میں کامیا ب ہوا اور جس نے ہیروشیما اور جاپان پر بمباری کرکے لاکھوں جاپانیوں کو مار گرایا تھا ، اس نے یہودی جیکب سے ساز باز کر کے انگریز بلفرڈ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے یہودی بنگوریان وائزمین کو اس لئے اسرائل کی ریاست عطا کی تھی کہ وہ اس کھلی بربرئت پر اتر آئیں کہ لوگ ان کے بیان کردہ قتل عام یا ہالوکاسٹ بھول جائیں اور انیس سو اسی کی دہائی کے صدر ریگن کے دور کے صابرہ اور شتیلہ کے قتل عام اور آج کے غزہ کی نسل کشی کو صرف یاد رکھیں۔کہاں برٹینڈ رسل ، ورڈرورتھ ، ملٹن ، شیکسپیئر وولٹیئر، روسو جیسے فلسفیوں پر فخرکرنے والے اور ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسی بڑی درسگاہوں کا مالک ہونے کے دعوے دار ، انسان تو کجا بظاہر ایک جانور کی د یکھ بال اور جانی حفاطت کے دعوے دار ، نشاط ثانیہ کے علمبردار آج کہاں سوئے ہیں اور وحشی اسرائل کی ،مائٹ از رائٹ، وکالت میں رطبلسان ہیں ۔ ان کو یوکرائن میں تو انسانی ضیاع پر مروڑ اٹھ رہے ہیں جہاں غزہ کی طرح عورتوں بچوں کے ہسپتالوں بمباری اور ان کے قتل گاہ بن جانے کا کا دور دور تک ذکر نہیں۔ انسانیت کے درس کو اپنا قبلہ قرار دینے والے مغرب کی بڑی اونچی حویلی کے مکین اور آج کے اہل اقتدار شائد سو گئے ہیںکہ ہم بقول محسن نقوی یہ بھی نہ کہہ سکیںکہ ایک کھڑکی کھلی ہے ابھی۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آج غزہ ایک بے نشان جزیرے کا نقشہ کم ایک قبرستان کا نقشہ زیادہ پیش کر رہا ہے
غزہ میں موت کا رقص کیا اسی طرح جاری رہے گا
Nov 27, 2023