کلیم عثمانی

جناب کلیم عثمانی سے نیاز مندی، دوستی اور اخوت کا تعلق کم و بیش 35 بر س کے عرصہ پر محیط ہے، اس کہانی کو کسی مختصر نشست میں بیان نہیں کیا جاسکتا، ان کا اصل تعارف تو ایک شاعر کا ہی ہے وہ کس مقام و مرتبہ کے شاعر تھے انہوں نے کیسی غزل کہی، ان کی کہی ہوئی نعتیں ہمارے نعتیہ ادب میں کس شان کی حامل ہیں، ان کے فلمی نغمات نے ہماری شاعری میں کیا مقام پایا یہ بتانا اور اس پر رائے دینا ظاہر ہے کہ ان اہل علم و فضل ہی کا کام ہے جو خود شعر کہتے ہیں یا شعر کی فنی نوعیت کو جانچ اور پرکھ سکتے ہیں۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں میں نے تو انہیں مشاعروں اور ریڈیو اور ٹی وی کی محفلوں میں غزلیں سناتے اور حضورؐ کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کرتے سنا اور یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے من میں ڈوب کر شعر کہہ رہے ہیں۔ ایسے اشعار جنہیں سن کر میں بھی اپنے دل کے تار ہلتے ہوئے محسوس کرتا تھا۔
کلیم عثمانی ایک ایسے دوست تھے جن سے آپ اپنے دل کی ہر بات اعتماد سے کہہ سکتے تھے اور اپنی زندگی کا ہر پنہاں گوشہ ان پر وا کرسکتے تھے، ان کے مشوروں سے فیض یاب ہوسکتے تھے اور ان کی رہنمائی میں اپنی زندگی کا سفر آسان کر سکتے تھے۔ وہ آپ کا اعتماد کبھی مجروح نہ کرنے والے انسان تھے اور آپ کے دکھ سکھ کے سچے ساتھی تھے۔ 1980ء میں جب روزنامہ وفاق کے ساتھ میری بائیس سالہ طویل رفاقت بائیس منٹوں میں اختتام یا انجام کو پہنچی تو میں اپنا ذہنی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے رستم پارک میں کلیم عثمانی کی قیام گاہ پر گیا اس وقت میری آنکھوں میں نمی تھی کلیم صاحب نے مجھے گلے سے لگایا، میری ہمت بندھائی اور مجھے روشن مستقبل کی نوید دی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا اور یہی وہ مرحلہ تھا جب کلیم صاحب میرے بہت قریب آئے اور پھر یہ قربت دونوںکے لئے متاع عزیز بن گئی۔
میں نے بیس برسوں کی اس گہری رفاقت میں محسوس کیا کہ کلیم صاحب بہت اچھے مسلمان ہیں۔ نماز روزہ تو وہ کرتے ہی تھے مگر ان کی عملی زندگی، ان کا زندگی گزارنے کا سادہ اسلوب حقیقت میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوںکی یاد تازہ کرتا تھا وہ بہت عرصہ فلمی دنیا سے وابستہ رہے، بے شمار فلموں کے گیت لکھے، نگار خانوں میں ان کا آنا جانا رہا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوب بندے کو اُس دنیا کی تمام آلائشوں سے محفوظ رکھا اور بالآخر انہوں نے فلمی دنیا کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا اور کسی طرح کی ترغیب اور تحریص انہیں واپسی پر آمادہ نہیں کرسکی۔ بحیثیت مسلمان انہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رہا۔ انہوں نے صبح کو شام کی اور شام کو صبح کی فکر نہ کی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کا فضل و کرم ہمیشہ ان پر سایہ فگن رہا اور انہیں عمر بھر اپنی کسی ضرورت اور حاجت کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑا اور قناعت و توکل کے زریں اصولوں نے ان کا بھرم ہمیشہ برقرار رکھا۔ حالانکہ معاشرے کی تصویر تو بقول کلیم عثمانی یہ بن چکی تھی۔
اب کہاں اگلی شرافت کے نمونے باقی
اب تو پیسہ ہے زمانے میں فقط نام و نسب
کلیم عثمانی جہاں ایک مثالی مسلمان تھے وہاں وہ ایک سچے اور پکے پاکستانی بھی تھے۔ ان کے بقول…
اپنے ماضی سے رشتہ توڑ لوں کیسے کلیم
آج کی قدروں کا شاید میں نمائندہ نہیں
مجھے اکثر دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا وہ ریڈیو پاکستان میں کوئی ریکارڈنگ کرا رہے ہوں،پاکستان ٹیلی ویژن کے کسی مشاعرے میں شریک ہوں، ’’تجارت‘‘ اور ’’جرأت‘‘ کے دفتر میں تشریف فرما ہوں یا ماہنامہ ’’سروس‘‘ اور سروس انڈسٹریز کی ایڈور ٹائزنگ ایجنسی کے دفتر میں ہوں اپنے ساتھیوں اور ملاقاتیوں سے ان کا موضوع گفتگو صرف اور صرف پاکستان ہوتا تھا۔ وہ ان دنوں کی یاد تازہ کرتے تھے جب برصغیر کے طول و عرض میں ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان‘‘ اور’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ کلیم عثمانی ایک نوجوان کی حیثیت میں خود بھی یہ نعرے لگانے والوں میں شامل تھے وہ اس جذبہ اور ولولہ کا بڑے جذباتی انداز میں ذکر کرتے تھے جس نے تحریک پاکستان کو حضرت قائد اعظم کی عظیم قیادت میں ساحلِ مراد سے آشنا کیا، انہیں یہ غم بہت ستاتا رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے قائدین نے قوم کے اس جذبہ کی قدر نہ کی اور حرص و ہوس کے اسیر ہوکر قیام پاکستان کے مقاصد کو یکسر فراموش کر دیا، اس معاملے میں کلیم عثمانی کی گفتگو سخت جذباتیت کی حدود میں داخل ہوجاتی تھی او ان کے سامع کی حالت یہ ہوتی تھی کہ اس کا واسطہ کسی شاعرِ خوش نوا سے نہیں بلکہ ایک متشدد اور متعصب پاکستانی سے ہے۔
یہ ان کی پاکستانیت کا نقطۂ عروج ہوتا تھا۔ کلیم عثمانی کا ایک شعر ذہن میں تازہ ہوتا ہے۔
ترے حضور جو نکلے تھے آرزو ہوکر
وہ اشک رہ گئے موضوع گفتگو ہوکر
وہ ان قومی رہنمائوںکے بے رحم ناقد تھے جو پاکستان کے معاشی اور سماجی زوال کا باعث بنے اور جنہوں نے پاکستان کے عوام کو حالات کے تند و تیز تھپیڑوں کے سپرد کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی پاکستان سے الفت و محبت جنوں اور عشق کی سرحدوں کو چھوتی تھی۔
اسلام، پاکستان، توکل، قناعت اور اعلیٰ و ارفع اخلاقی اصول، یہ تو تھے کلیم عثمانی کے محبوب۔ اب ذکر کلیم عثمانی کی محبوبہ کا بھی ہوجائے۔ کلیم صاحب کی اس محبوبہ کا نام تھا سائیکل۔ وہ ایک عرصہ تک یہ کہتے رہے کہ اگر انہیں ایک سائیکل مل جائے تو ان کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ رستم پارک سے اقبال ٹائون منتقل ہوجانے کے بعد سائیکل سے ان کا عشق دوچند ہوگیا جب ایگزبٹس ایڈورٹائزنگ سے علیحدگی کے بعد میں نے انہیں اپنے اخباری ادارے میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی تو وہ سائیکل کا قصہ لے بیٹھے بالآخر کوئٹہ سے ایک خوبصورت سائیکل ان کے لئے منگوانے کا انتظام کیا گیا جسے دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے۔(جاری)