ریاستی اداروں اور سیاسی قیادتوں کا امتحان !
چھ سال تک افواج ِ پاکستان کی قیادت کرنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ دو روز کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو سنیارٹی کی بنیاد پر نیا آرمی چیف مقرر کردیا گیاہے ۔ تاہم ’ کپ کو لِپ ‘ تک پہنچنے میں جس قسم کی صورت حال سے گزرنا پڑا اسے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔اس دوران جہاں سیاستدانوں نے معمول کی اس تقرری کو غیرمعمولی بنا دیا وہاں ملک کے میڈیا نے بھی ماحول کو گرمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گویا اس ایک تقرری کو ملک کے سب سے بڑے معرکہ کا درجہ دے کر اسے ’ ٹاک آف دی ٹاؤن‘ بنا ئے رکھا۔ مقام ِ شکر ہے کہ یہ مرحلہ بخیروخوبی سر ہوگیا ۔ افواہوں اور قیاس آرائیوں کی دھول بھی بیٹھ گئی ہے اور وہ زندگی جو ایک جمود کا شکار ہو چکی تھی پھر سے اپنے معمول پر آکر رواں دواں ہے ۔
نئے آرمی چیف کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے عہدابرأ ہونے کے لیے انہیں پہلے اپنی ٹیم تشکیل دینا ہوگی اور پھر اس کے ذریعے درپیش چیلجنز سے نبر دآزما ہونے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی ۔چونکہ ابھی انہوں نے اپنے نئے منصب کا باقاعدہ چارج نہیں سنبھالا اور اپنے پیش رو جنرل قمر جاوید باجوہ سے ’ فوجی کمان کی چھڑی ‘ ابھی حاصل نہیں کی اس لیے انہیں ’ ہوم ورک ‘ کے لیے جو وقت میسر ہے اس میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے روڈ میپ تیار کرسکیں گے۔سو اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تبصر ہ آرائی قبل از وقت ہو گی ۔ سرِ دست ہمیں ریٹائرمنٹ پر جانے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے بات کرنی ہے جنہوںنے پچھلے دنوں اسلام آباد میں یوم دفاع و شہدأ کی تقریب سے آرمی چیف کے طورپر اپنے آخری خطاب میں شعوری طورپر ان واقعات کو بھی موضوع ِ سخن بنایا جن پر ہماری عسکری قیادتیں بات کرنے سے ہمیشہ گریز کرتی رہی ہیں ۔اپنے تاریخی خطاب میں جنرل باجوہ نے ایک طرف فوج کی ماضی میں ہونے والی غلطیوں ، کوتاہیوں اور اپنی حدود سے متجاوز اقدامات کو برملا طورپرآئین کی خلاف ورزی قراردیا تو دوسری طرف انہوںنے پاکستانی سیاست دانوں کو بھی آئینہ دکھلایا ۔انہوں نے بطور خاص سن اکہتر میں پاکستان پر لگنے والے ان مٹ داغ کا حوالہ دیتے ہوئے مشہور ِ زمانہ حمود الرحمان کمشن رپورٹ کا ذکر کیے بغیر کہا کہ ’’ فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق حقائق درست کرنا چاہتا ہوں ، مشرقی پاکستان کا سقوط ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی ‘‘۔ان کی طرف سے ’ حقائق کی درستی ‘ کے ردّ ِ عمل میں بعض نئے مباحث کا راستہ کھل گیا ہے ۔ان سے پہلے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید انجم نے بھی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اسی نوع کا اعتراف کیا تھا کہ فوج ستر سالوں میں ہونے والی غلطیوں کو اپنے خون سے دھو رہی ہے اور اب جنرل باجوہ نے بھی یہ حقیقت بیان کرنے میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ فوج نے ماضی میں غلطیاں کیں اور سیاست میں مداخلت کا غیر آئینی اقدام کیا ۔ انہوں نے خود تسلیم کیاکہ پاک فوج پر تنقید کی بڑی وجہ ستر سال سے اس کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے ۔چنانچہ پچھلے سال فروری میں فوج نے سوچ وبچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی ۔
بلا شبہ ماضی کی ماورائے آئین مہم جوئیوں نے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر ملک کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا جسے پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔تاہم جس طرح اس نقصان کا ازالہ اب ممکن نہیں اسی طرح محض اعتراف سے بھی ماضی کے سارے داغ نہیں دھل سکیں گے ۔ لیکن چونکہ فوج نے بحیثیت ادارہ آئندہ سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا عہد باندھ لیا ہے تو ہمیں کھلے دل سے اس کو پذیرائی بخشنی چاہیے اور اسے موقع دینا چاہیے کہ وہ سیاست کو اپنے لیے شجر ِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے تمام ترتوجہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر ہی مرکوز رکھے ۔ امورِ ِ مملکت چلاناسیاست دانوں کا کام ہے سو یہ انہی کو کرنے دیا جائے ۔
یہ درست ہے کہ موروثی حکمرانی ، مفاد پرستی ، اقربا پروری اور قومی خزانے کو شیر ِ مادر کی طرح ہڑپ کرنا ہماری سیاسی قیادت کے وہ ’ اوصاف ‘ ہیں جن سے فوری چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا لیکن اگر جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے اور عوام کو موقع دیا جاتا رہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ جماعت کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیں تو اس سے یقینی طورپر بہتری آئے گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شفافیت آتی جائے گی ۔شرط مگر یہی ہے کہ فوج سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کرے ۔ البتہ جہاں پر سیاست دان’ اپنی جبلی خواہشات ‘ سے مرعوب ہو کر ایک دوسرے کے خلاف اس حد تک چلے جائیں کہ ملک کسی بحران میں مبتلاہونے لگے یا اس کی سلامتی ہی کو خطرات لاحق ہونے لگیں تو ملک کی سلامتی کے تحفظ کے ضامن ادارے کے طور پر فوج ملکی معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔اسے اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے معاملات مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور جمہوریت کی گاڑی کو درست ٹریک پر چڑھانے کے بعد واپس’ اپنے اصل کام ‘ کی طرف آجانا ہوگا ۔گویا اب یہ عسکری قیادت اور اہل ِ سیاست کے ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ کا بھی امتحان ہے جس نے نظریہ ٔ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کر کے آئین اور اس کے تحت قائم سسٹم کو کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا عزم کیا ہوا ہے ۔