ڈاکٹر انور محمود خالد کی پہلی برسی پر چند تاثرات (2)

ڈاکٹر انور محمود خالد بہت سی شخصی خوبیوں کے مالک تھے۔ میں نے اپنے دوستوں میں ان سے زیادہ مخلص کسی کو نہیں پایا۔ وہ کسی بھی معاملے میں کلمۂ حق ادا کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے اور ہر حال میں حق و انصاف کا ساتھ دیتے تھے۔ اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے لیکن تحریر میں ہر صورت شائستگی اور توازن برقرار رکھتے تھے۔ کسی بھی معاملے میں ’جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘ کا انداز نہیں اپناتے تھے اور حق و انصاف کے موقف کو ترک نہیں کرتے تھے۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ وہ مزاجاً دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے اسلامی احکامات کے پوری طرح پابند تھے۔ حج بھی کر رکھا تھا۔ دینی معاملات پر بھی پوری طرح عامل تھے تاہم ادبی معاملات میں دائیں اور بائیں ہر طرح کے لکھنے والوں کا بلا تعصب مطالعہ کرتے تھے اور اپنی گفتگو اور تنقید میں ہر طرح کے لکھنے والوں کی درجہ بندی ادبی معاییر کے مطابق کرتے تھے۔
اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے سبھی لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ تقریباً نصف صدی تک احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے مداحین میں کتنا تناؤ رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد کے دونوں گروہوں سے یکساں تعلقات تھے۔ وہ ان دونوں بڑے لکھنے والوں کا یکساں احترام کرتے تھے۔ دونوں کے ہاں حاضر ہوتے رہتے۔ ’فنون‘ اور ’اوراق‘ دونوں مجلوں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے اور دونوں میں ان کی تحریریں شائع ہوتیں مگر دونوں کے ادبی مقام کا تعین کرنے میں دیانت اور انصاف کا پورا خیال رکھتے۔ رسالہ ’سخن‘ فیصل آباد (2020ئ) میں ان کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا۔ ترقی پسند تحریک کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ سرسیّد تحریک کے بعد یہ اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک ہے اور اس سے اردو ادب میں بہت سے اضافے ہوئے۔ احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا دونوں کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود انھوں نے افسانے اور شاعری میں ندیم قاسمی کی فوقیت کو تسلیم کیا۔ وزیر آغا کی تنقیدی صلاحیتوں کو سراہا۔ ان کی انشائیہ نگاری کو مناسب اہمیت دی اور ان کی شاعرانہ حیثیت کو رد نہیں کیا لیکن واضح طور پر کہا کہ مجموعی طور پر ادب میں قاسمی صاحب کا قد کاٹھ زیادہ بڑا ہے۔
ڈاکٹر انور محمود خالد کی شادی نسبتاً چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ وہ گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام بیٹے اور بیٹیاں بہت لائق نکلے اور ماشا اللہ سبھی اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہیں۔ بچوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھنے کے باوجود میری عمر کے اکثر والدین کی طرح ان سے کسی قدر فاصلہ رکھتے تھے اور ان سے زیادہ بے تکلف نہیں ہوتے تھے۔ یہ بے تکلفی دوست احباب کے لیے مخصوص تھی۔
بعض دوست ان کی وسعتِ مطالعہ کے معترف تھے مگر دبی زبان سے یہ بھی کہتے تھے کہ انھوں نے بہت کم لکھا ہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ انھوں نے نوجوانی ہی سے تحریر و تصنیف کا آغاز کر دیا تھا۔ پہلے افسانے لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کو ترک کر دیا، پھر شاعری کرنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری اور طنز و مزاح کی طرف توجہ دی۔ انھی دنوں ہفت روزہ ’لیل و نہار‘، روزنامہ ’امروز‘ اور روزنامہ ’مشرق‘ جیسے مقبول جرائد اور اخبارات میں ان کی نظم و نثر شائع ہونے لگی لیکن ان کی اولین تصنیف ان کا شعری مجموعہ ’عہد نامہ‘ تھا جو 1972ء میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کے بعد نثر کی طرف ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔ انھوں نے بڑی تعداد میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھے جن میں سے اکثر ماہنامہ ’الحمرا‘ لاہور میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ ان کی تعداد کسی صورت بھی پچاس سے کم نہیں، جو بڑی محنت اور تنقیدی بصیرت سے لکھے گئے ہیں اور بعض مضامین اردو تحقیق و تنقید میں مستقل اضافوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے طویل مکاتیب بھی ’الحمرا‘ میں باقاعدگی سے چھپتے تھے، وہ بھی تنقیدی مضامین سے کم اہم نہیں ہیں۔ اگر ان سب کو یکجا کیا جائے تو پانچ چھ کتابیں بن سکتی ہیں۔ کاش کوئی انھیں یکجا کر دے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی یونیورسٹی (مثلاً جی سی یو فیصل آباد) ان پر پی ایچ ڈی کا موضوع کسی محنتی طالب علم کو دے اور وہ کام کے دوران ان مضامین کو کتابی صورت میں ترتیب دے ڈالے۔
ڈاکٹر انور محمود خالد کے مطبوعہ کاموں میں بلاشبہ اہم ترین کام ان کا تحقیقی مقالہ ’اردو نثر میں سیرت رسولؐ‘ ہے جس پر انھیں 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ یہ بہت اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کام کی اہمیت کی طرف ذیل کی سطور میں توجہ دلاتے ہیں:
’اردو نثر میں سیرتِ رسولؐ پر تحقیقی کام کرتے وقت مجھے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موضوع پر اکا دکا مقالات تو رسائل میں مل گئے لیکن کوئی باقاعدہ کتاب نہ ملی چنانچہ مسافر کو ہی رہنما بننا پڑا۔ اس موضوع کے لیے بنیادی کتابیں تو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو کی کتبِ سیرت ہی تھیں لیکن ان پر تحقیقی و تنقیدی مواد نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں نے بنیادی کتبِ سیرت اور معاون کتابیں پاکستان، بھارت، مقبوضہ کشمیر، انگلستان اور امریکا سے حاصل کیں اور اس سلسلے میں کم و بیش دس ہزار کتابوں کو کھنگالنے کا موقع ملا۔ میری یہ کتاب 854 صفحات پر مشتمل ہے اور صرف اس کا اشاریہ سو صفحات کا ہے، جن میں ان سب کتابوں کی تفصیل موجود ہے جن سے میں دورانِ تحقیق استفادہ کیا۔‘
اس اقتباس میں جو کچھ کہا گیا وہ ہرگز کوئی مبالغہ نہیں، 2021ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو ا جس سے حرف بہ حرف اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ چالیس سال سے اس کتاب پر نظرِ ثانی کرنے میں مصروف تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اس عرصے میں سیرت پر جو کام دنیا بھر میں ہوا ہے وہ بھی کتاب میں سمو دیا جائے۔ اس سلسلے میں بہت سا کام وہ کر چکے تھے لیکن عمر کے آخری دو برسوں میں انھیں احساس ہو گیا تھا کہ شاید اس کی تکمیل نہ ہو سکے گی۔ اسی لیے انھوں نے پہلی اشاعت کی ازسرِ نو اشاعت پر آمادگی ظاہر کر دی تھی جو الحمد للہ ان کی زندگی میں ان تک پہنچ گئی۔ تنہا یہ کام ہی انور محمو خالد کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
(ختم شد)