دل کو روؤں کہ‘ پیٹوں جگر کو…

آج کے کالم کا آغاز مرزا غالب کی غزل کے ایک شعر سے کر رہا ہوں قارئین میرا یہ انتخاب آپ کو پسند آئے گا کیونکہ اس کالم میں دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا گیا ہے۔
حیراں ہوں‘ دل کو روؤں کہ‘ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو‘ تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
کیونکہ اس وقت بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص کا جینا مشکل ہو گیا ہے ظالم حکمرانوں کی چالاکیوں اور اقتدار کی بھوک کی وجہ سے ہر چیز کی برکت ختم ہو کر رہ گئی ہے. ایسے حالات میں مگر ان حکمرانوں کی خاموشی سے اور ان کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بیچارے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں انہیں کسی کا کوئی خیال نہیں ہے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں آئے دن اخبارات میں خودکشیوں کی خبریں نمایاں ہوتی ہیں. اب یہاں پر بھی غور کریں کہ تصورات کی دْنیا کتنی دلکش اور حسین ہے۔ نہ خیالات پر ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی خواب دیکھنے پر ڈیوٹی نہ خوابوں کے محل تعمیر کرنے پر خرچہ نہ ہی خیالی پلاؤ بنانے میں دقّت مگر اب خواب بھی سستے نہیں رہے کہ آمدنی کم اور اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے نیند ہی نہیں آتی۔ نیند آئے گی تو خوش کْن خواب ہوں گے۔ یہ ’رات بھر نیند کیوں نہیں آتی‘ صرف غالب کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ہر اْس شخص کا ہے جو مہنگائی اور مستقبل کے خدشات کا شکار ہے ۔ انقلاب فرانس کا یہ جملہ تاریخ کے اوراق میں آج بھی رقم ہے کہ ٹیکسوں، بے روزگاری، غربت، مذہب اور طاقتور حلقوں کے ستائے عوام کے دْکھ کی روٹی اور سْکھ کے سالن سے لاعلم ملکہ یہ کہتی سْنائی دی کہ روٹی نہیں تو کیا ہوا عوام کیک اور پیسٹری کھا کر پیٹ کی آگ بجھا کیوں نہیں لیتے. جی ہاں صورتحال آج بھی مختلف نہیں ہے۔ کبھی چائے کی ایک پیالی کم کرنے اور کبھی ایک روٹی کم کھانے کے مشورے پھر اْسی دور کی جانب لے جاتے ہیں محلوں میں فانوس کی روشنی تلے بسنے والے غریب کی کْٹیا کے جلتے بجھتے دیے کا غم کیسے جان سکتے ہیں، بھرے پیٹ انقلاب کے نعرے لگانے والی خالی آنتوں کی آوازوں کو کیسے سْن سکتے ہیں۔ جھوٹے وعدے کرنے والے رہنما بچوں کی سچی خواہشوں کو جھوٹی تسلیوں سے بہلانے والے والدین کے درد کا احساس کیسے کر سکتے ہیں۔ معاشی بحران کے ذمہ داران خاکی ہیں یا نوری، مستقل حکمران ہیں یا عارضی، ماضی قریب کے حکمران ہیں یا بعید کے ذمہ دار تین سو کنال میں رہتے ہیں یا سرکاری محل میں، سوال یہ ہے کہ دن بہ دن کمزور معیشت نیوکلئیر ریاست کے باسیوں کو انجانے معاشی خوف کا شکار بنا رہی ہے یہ بات اپنی جگہ درست کہ آگے بڑھنے کے لیے پیچھے مْڑ کر دیکھنا ضروری ٹھہرا کہ ہم نے خود کے ساتھ کیا کیا ہے۔؟ ہم اپنی بربادی کا نوحہ پڑھتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احاطہ بھی کر لیں تو کیا ہی اچھا ہو گا۔ پیچھے مْڑ کر دیکھنے سے پتھر کے ہو جانے کا خوف مستقبل کے خدشات کا راستہ نہ روک لے اس کا ادراک اب کرنا ہو گا۔ اْس کے لیے ستر برس پیچھے جانے کی قطعا ضرورت نہیں۔ گذشتہ بیس سال کی پالیسیوں کا احاطہ کافی ہو گا۔ ذرا غور کریں اس وقت رواں سال کی مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی کا مورد الزام کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ٹھیک نہ ہوگا بلکہ اس میں موجودہ اور سابقہ حکومتیں سب برابر کی حصے دار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی کا حصہ زیادہ اور کسی کا کم ہے، جیسے سابقہ حکومت پی ٹی آئی نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اْن کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج غربت کی شرح اس قدر بلند ہوچکی ہے کہ اب صحیح معنوں میں دو وقت کی روٹی میسر آنا بھی غنیمت ہے اور وٹامن فراہم کرنے والے پھل اور دیگر غذائیں خریدنے کا تصور کرنا بھی عام آدمی کیلیے ناممکن ہے۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب غریب آدمی سبزی پھل فروش اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنے کی بجائے صرف بھاؤ پوچھ کر صبر کے ساتھ بغیر کوئی اشیا خریدے لوٹ جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اْن کے اتحادی سابقہ حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے خوب لتاڑتے تھے لیکن عوام دیکھ رہے ہیں کہ وہی اتحادی اب حکومت میں آکر اقتدار اور وزارتوں کو انجوائے تو کر رہے ہیں لیکن عوام کے اولین مسئلے مہنگائی پر قابو پانے کیلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہے۔ مہنگائی کی وجہ جہاں کمزور معاشی پالیسی بتائی جارہی ہے وہیں ملک بھر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بھی مہنگائی میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن عوام سوال کر رہے ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی گرانٹ اور امداد کی شکل میں دادرسی کی جارہی ہے تو پھر مہنگائی میں کمی کیوں نہیں ہورہی؟ دوسرا حکومت نے واویلا مچایا ہوا تھا کہ آئی ایم ایف کی قسط کی ریلیز کے بعد نہ صرف ڈالر کی قیمت نیچے آجائے گی بلکہ مہنگائی کا طوفان بھی تھم جائے گا لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف کی قسط جاری ہونے کے باوجود نہ صرف ڈالر کی قیمت بتدریج بڑھ رہی ہے بلکہ مہنگائی کی شرح بھی بڑھتے ہوئے کوہ ہمالیہ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔