’’آساں ہے پتہ رہبران ملک و قوم کا‘‘

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یومِ شہدا اور دفاع پاکستان کی تقریب سے الوداعی خطاب میں کہا میں آج ایک ایسے موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں جس پر بات کرنے سے عموماً لوگ گریز کرتے ہیں۔ یہ موضوع 1971 میں ہماری فوج کی سابق مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے۔ میں اس حوالے سے کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے یہ کہ سانحہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔
آرمی چیف نے کہا پچھلے سال فروری میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو کئی حلقوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، غیر مناسب زبان استعمال کی ، فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے بہت سے مواقع اور وسائل موجود تھے ، لیکن فوج نے ملکی مفاد میں حوصلہ دکھایا ، کوئی منفی بیان نہیں دیا ، لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ماضی کی سیاسی ناکامی کا اشارہ خوبصورت الفاظ میںدیا۔سچ بات یہ ہے کہ وطن عزیز پر جب بھی مشکل وقت آیا پاک فوج کے جوانوں نے فرنٹ لائن پر کمان سنبھالی اور ملک اور ملک کے باسیوں کی جان، مال،عزت کی نگہبانی کی ، کوئی بھی موقع ہو دشمن کا غرور خاک میں پاک فوج نے ہی ملایا۔ پاک فوج کے شہدا کی قربانیوںکو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔کہاجاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،بہت کم سیاست دان ہوتے ہیں جو کرسی پربیٹھتے ہیں توعوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھتے ہیں یعنی درد دل رکھنے والے سیاست دان اب کم ہی رہ گئے ہیں۔زیادہ تر کرسی اوراقتدار کا ہی سوچتے ہیں۔ بدزبانی کا آسیب یوں معاشرے میں اترا ہے، ہر قدر اور ہر روایت پامال ہو چکی ہے۔کسی ’’سیانے ‘‘نے پوچھا کہ بھئی اس معاشرے کوکیا ہوگیا ہے ؟کونسی لت لگ گئی ہے تو اس پر ایک اور ’’سیانے‘‘ نے برجستہ کہا کہ بھئی اس معاشرے کو سیاست ہو گئی ہے؟ اوراس معاشرے میں بسنے والوں کو سیاست کی لت لگ گئی ہے ،یا یوں کہیے کہ ہرمعاملے میںسیاست رچ بس گئی ہے۔
مزاحیہ شاعر خالد مسعود خان نے کمال لفاظی کی ہے کہ
ساڈے جو ارادے تھے
کڈے سِدھے سادے تھے
ہم نے سوچ رکھا تھا
بن کے ایک دن ممبر
اکو کام کرنا ہے
ایک دو پلازوں کو
چار چھہ پلاٹوں کو
اپنے نام کرنا ہے
سیاسی جماعتیں طاقت کے نشہ میں بے لگام ہوچکی ہیں۔ سیاست دانوں نے ہماری بے شعوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست سے اخلاقیات کو الگ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں طاقت و سیاست کا ایک مہلک آمیزہ تیار ہوا جو اپنے ہی عوام کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے۔ اب ہمیں اپنے بل بوتے پر آگے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا اس کی ابتداء ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا ، خود باشعور ہونا ہوگا۔
جمہوری عمل طویل، صبرآزما اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ معاشرتی ارتقا میں ہزار رکاوٹیں آتی ہیں لیکن سیاسی کار کنوں کو پختگی تک پہنچنے کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔گڈ گورننس کے نام پر ایسی بچگانہ حرکتیں کی جاتی ہیں کہ بے زاری ہونے لگتی ہے۔عام آدمی نہ ہماری سیاست کا موضوع ہے نہ اس کا سٹیک ہولڈر۔ وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر کوئی سیاسی منصب حاصل کر لے، یہ ناممکنات میں سے ہے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے
اْداس چہرے گْلاب کر دے
جو ظلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
حکومت ایک ہی طبقے کی ہے یعنی اشرافیہ اس پر قابض ہے اورمعاشی نظام اور معیشت کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔بس چہرے بدلتے ہیں،نظام تو وہی رہتا ہے۔ذی شعورحلقہ کاکہنا ہے کہ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، معاشرے میں عدم برداشت کا کلچراور روایات کو ختم کرنا ہوگاکیونکہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے لیڈر میں جان ہے
آساں ہے پتہ رہبران ملک و قوم کا
بستی میں صرف ایک ہی پختہ مکان ہے