خواتین پر تشدد کا عالمی دن
ویسے تو خواتین پر تشدد کا عالمی دن ہر سال منایا جاتا ہے لیکن خواتین پر ہونے والے اس ظلم کا کوئی سدباب نہیں کیا جا رہا، پاکستان کا فرسودہ عدالتی نظام تو اس بارے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے پولیس کی بدعنوانی اور معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے عورت آج بھی مظلوم ہے۔ پسند کی شادی کرنے والی عورت کے تو اس کے بھائی اور والدین خود دشمن بن جاتے ہیں ۔کم سن لڑکیوں کی لاشیں کھیتوں اور نالوں میں پڑی ملتی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں اور بچیوں پر تشدد کا سخت اور فوری نوٹس لیا جائے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال نے اپنی حالیہ تقریر میں زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے معاملے میں ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کرنا چاہیے اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے سدباب کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام ضروری ہے جس میں ایسے وقوع جات کے ساتھ دن کے اندر اندر پولیس تفتیش مکمل کر کے ملزمان کے خلاف مقدمے کا چالان خصوصی عدالت میں داخل کرے۔ جہاں دو ہفتے کے اندر اندر مقدمے کا فیصلہ کر کے مجرموں کو سزائے موت سنائی جائے اور اس فیصلے کے خلاف صرف ایک اپیل کا حق ہو اور ہائی کورٹ میں اس اپیل کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر کیا جائے۔مقدمے کی تفتیش کسی ایک سب انسپکٹر کے سپرد نا کی جائے بلکہ ایک تفتیشی ٹیم بنائی جائے جس میں تین ارکان ہوں ۔ ایک پولیس کا کوئی سینئر افسر دوسرا انتظامی مجسٹریٹ اور تیسرا ایک علاقے کا کوئی نیک نام شخص ہوں تاکہ رشوت کی وجہ سے تفتیش میں بددیانتی نہ ہو سکے۔مقدمہ سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج سے کمتر عدالت میں پیش نہ کیا جا سکے ۔ تفتیش کی ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچے اور اس علاقے کے لوگوں کو شامل تفتیش کرے قتل کے کیس میں سزائے موت سے کم سزا نہ دی جائے اور مظلوم عورت یا اس کے لواحقین کو ملزم فریق سے بھاری معاوضہ بھی دلوایا جائے۔
(ایم کوکب اقبال ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 03335131696 )