وفا کے موتی
صف بہ صف لوگ کھڑے دیکھے ہیں درباروں میں
بْھوک رقصاں ہے مرے شہر کے بازاروں میں
یہ تو میخانوں میں انساں کا لہو پیتے ہیں
بھیڑئیے مْجھ کو نظر آتے ہیں میخواروں میں
قافلہ منزلِ مقصود پہ کیسے پہنچے
راہزن جبکہ ملیں قافلہ سالاروں میں
مَیں کسی اور کی تعریف کروں ، ناممکن !
مَیں تو شامل ہوں ترے حاشیہ برداروں میں
حسرتِ گْل میں سْوئے دشت نکل آئے ہیں
جب مِلے خارِ مْغیلاں اِنہیں گْلزاروں میں
’’ ڈھونڈ اْجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی‘‘
یہ وہ موتی ہیں جو مِلتے ہیں وفا داروں میں
جعفری آگ کو سینے میں سلگتے دیکھا
ترے اشعار مِلے ہم کو تو شہ پاروں میں
ڈاکٹر مقصود جعفری