2008’’نظریاتی درستگی اور امریکہ‘‘

ء میں صدر اوبامہ دور میں جان کیری نے اعلان کیا کہ امریکہ نے ''پاکستانی قوم کی نظریاتی درستگی کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو براہِ راست اداروں، این جی اوز اور شخصیات کو دی جائے گی'' ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ اس پروگرام کی تسلسل سے نگرانی کی جائے گی اور مثبت نتائج کی صورت میں مزید فنڈز دئیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت میں اس بات کو صحیح طریقے سے سمجھ نہیں سکا۔ پھر 2016ء میں ترک صدر جناب طیب اردگان جب پاکستان دورے پر آئے تو انہوں نے خبردار کیا کہ ''پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گرلن طرز'' کے خطرات کا سامنا ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدام کرنا ہوں گے۔ ان کے جانے کے بعد مقتدرہ قوتوں نے باریک بینی سے اس مشورے کا جائزہ لیا اور تقریباً یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر اس خطرے کے سدِباب کی سعی کریں کیونکہ نظریات سے عاری نظام حکمرانی یہ دبائو برداشت نہیں کر سکتا۔ قومی ایکشن پلان سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ مذہب ہے جو بیمار ذہنیت کی اختراع ہے جس نے ہمارے معاشرے کو سیاسی و معاشرتی، لبرل، روشن خیال اور قوم پرست مذہبی گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ لبرل اور سیکولر طبقہ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے سیاسی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ مذہبی طبقہ اپنی بے شمار کمزوریوں کی وجہ سے بے بسی کی علامت بن چکا ہے جس کی سیاست میں کوئی جگہ بنتی نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی پالیسی فیصلوں میں اس کی کوئی اہمیت ہے کیونکہ ہمارے لوگ انہیں ووٹ دینا پسند نہیں کرتے اور حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ملک میں اسی طبقے کو دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان معتدل اسلامی معاشرے کی اعلیٰ ترین مثال ہے جہاں ہر مذہبی مکتبہ فکر کے لوگ بستے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی و نظریاتی صلیبی جنگ نے معتدل مسلم معاشرے کے روشن چہرے کو داغدار کر دیا ہے۔ ہمارے پڑوس ایران میں ایسا نظام حکومت قائم ہے جسے فقہیہ کا نام دیا گیا ہے جسکی بنیاد قرآن و سنہ کے اْصولوں پر قائم ہے۔ یہ نظام ایرانی قوم کو اسلام دشمن قوتوں اور سیاسی واقتصادی پابندیوں کے خلاف لڑنے کا عزم اور حوصلہ دیتا ہے اسی طرح افغانوں نے اسلامی جمہوری ریاستی نظام کا علم اٹھاتے ہوئے گذشتہ تین دہائی میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا اور اپنے اس عزم پر سختی سے قائم ہیں کہ قابض فوجوں کا ایجنڈا ان کے لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کی قومی اقدار، ملی غیرت، رسم و راج اور نظریات کے خلاف ہے۔ یہ نظریہ ہی وہ قوت ہے جسے دوام حاصل ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، عرض کرتا چلوں کہ چند ہفتے قبل میری فوج کے ایک سینئر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سے ملاقات ہوئی تو اس ''نظریاتی درستگی'' بارے سوال کیا۔ کہنے لگے کہ دشمنوں کے تین ٹارگٹس ہیں ایک میں وہ زبردست
انداز میں کامیاب ہیں یعنی ہمارے ملک میں انصاف کا حصول بے حد مشکل ہے اور باقی دو اہداف افواج پاکستان کو متنازعہ بنانا اور مذہبی اقدار پر حملہ کرنا ہے۔ چند دن قبل عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا دو روزہ انعقاد ہوا۔ ان دو دنوں میں ''نظریاتی درستگی'' کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ عاصمہ جہانگیر اب اس دنیا میں نہیں، اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔ مگر ان کے ماضی سے کون واقف نہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کی سرکردہ رہنما ضرور تھیں مگر کسی غریب، بے بس اور لاچار کے لیے ان کی آواز شاید ہی کسی نے سنی، پڑھی یا دیکھی ہو۔ اداروں کے خلاف وہ روزِ اول سے بولتی تھیںاور ان کا بغض بات بات پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ایسی کانفرنس میں بھلا کیا ہو سکتا تھا۔ کانفرنس کو پیشہ وارانہ انداز میں بہت خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا تھا۔ مختلف طرح کے کئی سیشنز ہوئے اور ڈھیر سارے مقررین نے خطاب کیا۔ اس میں انٹرایکٹو ایونٹس کے ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ بھی تھا۔ اس کانفرنس کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں بے شمار تقاریر ہوئیں جن میں ہمارے فاضل چیف جسٹس بھی تھے اور آخری خطاب انہی عدالتوں کے سزا یافتہ کا تھا۔ کئی فاضل ججوں کی موجودگی میں جس طرح انصاف کا ماتم اور نوحہ کیا گیا، گمان یہ ہے کہ اب توہین عدالت کا قانون ختم ہی تصور کیا جائے گا۔ کیونکہ کسی عام تقریر، تحریر یا گفتگو میں کہی بات پر نوٹس ضرور لیا جا سکتا ہے کہ جس میں کوئی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ مگر کانفرنس کی تقاریر کے مقابلے میں شاید کوئی اس حد تک جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کی 22 کروڑ لوگ کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کو معلوم چلا کہ جج صبح 8 بجے آتے ضرور ہیں مگر 3 بجے اپنے دل و دماغ پر ایک بوجھ لئے چلے جاتے ہیں۔ فوج کے جنرلز کا ضرور ذکر کیا گیا مگر افتخار محمد چوہدری کو بحال کرانے والے جنرل صاحب کو سبھی بھول گئے۔ ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے بے شمار غلطیوں کا اعتراف کیا، کاش وہ یہ بھی اعتراف کرتے کہ چھٹی کے دن کن لوگوں کے لیے عدالت کھلتی ہے اور انصاف دیا جاتا ہے کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ ایک آمر کے دور میں صوبائی وزارت کا نشہ کس قدر ہوتا ہے۔ ملک میں بے شمار قلمکار ایسے ہیں کہ جن کی اپنے ہی ملک میں پذیرائی نہیں۔ جب کہ کانفرنس میں مدعو کچھ ایسے تھے کہ جن کو نزلہ بھی ہو جائے تو بین الاقوامی میڈیا میں ان کا نمایاں ذکر ہوتا ہے۔ یہ کانفرنس لاہور کے بہترین ہوٹل میں ہوئی تھی۔ مقررین میں سے کچھ نے اہل لاہور کا ذکر کیا کہ اب آپ کی باری ہے، کیونکہ جب لاہوری کھڑے ہو جاتے ہیں تو پورا ملک کھڑا ہو جاتا ہے۔ لاہوریوں نے اس پیغام کو بہت مثبت لیا اور لاکھوں تعداد میں علامہ خادم رضوی کی برسی پر پہنچ کر یکجا ہو کر نعرہ لگایا لبیک یا رسول اللہ، لبیک یا رسول اللہ اور یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے پیارے نبی عاشق جب تک موجود ہیں کوئی نظریاتی درستگی نہیں ہو گی اور ایسا کرنے اور کروانے والے ایک دن انشاء اللہ نشانِ عبرت بنیں گے۔ جیئں گے تو ناموسِ رسالت کے لیے مریں گے تو ختمِ نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے۔ اس ملک کا مستقبل اللہ کے کرم سے اسلامی نظام اور ہمارے نبی پاکؐ کی تعلیمات میں ہی ہے۔