حکومت مہنگائی کیسے کم کر سکتی ہے؟

اس وقت پاکستان کے ذمہ 26000 ارب کا اندرون ملکی قرضہ ہے جو مختلف مقامی بنکوں سے لیا گیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں اس قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 2750 ارب کی رقم مختص کی ہے۔ سود کی اس رقم کی ادائیگی کے لیے ٹیکس ریونیو اور پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نصف سے زیادہ حصہ صرف ہو جاتا ہے۔ حکومت اس ادائیگی کو کم کرنے کے لیے کم شرح سود کا انتخاب کر سکتی ہے یا اس پوری رقم کی ادائیگی کے لیے کرنسی پرنٹ کر سکتی ہے، لیکن حکومت ان رقوم کی ادائیگی ٹیکس کے پیسے سے کرتی ہے اور عوام کے ٹیکس سے اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی واحد وجہ مہنگائی کا خوف ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر شرح سود کو کم کیا گیا یا کرنسی پرنٹنگ کا اپشن استعمال کیا گیا، تو اس سے مہنگائی کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ اس لیے سود کی ادائیگی کیلئے مختص رقم کو بجا طور پر مہنگائی پر قابو پانے کی فیس کہا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ شرح سود کو کم کیا جائے تو مہنگائی آئے گی لیکن درحقیقت شرح سود کو کم نہ کرنا ہی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کی یہ فیس دراصل ہدف کیبرعکس نتائج کا سبب ہے اور اس فیس کی ادائیگی کے لیے جمع کیے جانے والے ٹیکسز مہنگائی کو کم کرنے کے بجائے مزید بھڑکاتے ہیں۔ اگر شرح سود کو کم کر دیا جائے تو موجودہ وسائل ہی میں رہتے ہوئے ہزاروں ارب کی بچت ممکن ہے۔ یہ ایک بڑی عجیب وغریب حقیقت ہے کہ حکومت جب کسی بنک سے قرض لیتی ہے، تو شرح سود کا انتخاب حکومت کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ مثلا ابھی 19 نومبر کو حکومت نے شرح سود کو 7.25 فیصد سے بڑھا کر 8.75 فیصد کر دیا، حالانکہ شرح سود میں اضافے کا مطالبہ کسی بنک سے نہیں کیا گیاتھا۔ اسی طرح گذشتہ سال مارچ اور اپریل میں حکومت نے شرح سود 13.25 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دی تھی، لیکن نہ تو کسی بنک نے اس پر احتجاج کیا، نہ حکومت کو قرض دینے سے انکار کیا۔ شرح سود مکمل طور پر حکومت کا اختیار ہے، وہ چاہے تو ایک فیصد کا انتخاب کرے یا چاہے تو 20 فیصد منتخب کر لے، کمرشل بنکوں کے پاس انکار یا احتجاج کا آپشن موجود نہیں۔ پاکستان میں حکومت کے لئے گئے قرض کی مختلف مدات پر شرح سود 7 فیصد سے 11فیصدکے درمیان ہے، جو دنیا میں بلند ترین شرح سود میں شمار ہوتی ہے ۔ اگر ہم ملک عزیز میں امریکہ میں مروجہ شرح سود کا اطلاق کریں تو پاکستان کے اندرون ملکی قرض پر سود کی رقم محض 100 ارب تک رہ جائے گی۔ ۔ اگر ہندوستان، انڈونیشیا یا تھائی لینڈ والی شرح سود کو منتخب کیا جائے تو سودی ادائیگیاں بالترتیب 1300 ارب، 950 ارب اور 150 ارب تک رہ جائیں گی۔ ان میں سے کسی بھی شرح کے انتخاب سے 1400 ارب یا اس سے زیادہ کی بچت ہوگی، جس سے پوری معیشت کو درست کیا جاسکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں شرح سود اتنی بلند سطح پر ہے؟ اس کا جواب اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے مانیٹری پالیسی بیانات میں مل سکتا ہے۔ ان بیانات کے مطابق شرح سود کے انتخاب کی سب سے بنیادی وجہ افراط زر ہے۔ اسٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ بلند شرح سود مہنگائی کو کم کر سکتی ہے ، لہذاجب افراط زر میں اضافے کی توقع ہو تو سٹیٹ زیادہ شرح سود کا انتخاب کرتا ہے۔ حالیہ مہنگائی کی لہر کے دوران سٹیٹ بینک اور حکومت نے اعتراف کر لیا ہے کہ مہنگائی بین الاقوامی عوامل کی وجہ سے ہے وہ دونوں اسے کنٹرول نہیں کر سکتے، تو اتنی بڑی مہنگائی کنٹرول فیس کی کوئی منطق نہیں۔ اس لیے سب سے پہلا کام حکومت یہ کر سکتی ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کی اس فیس کو واپس لیا جائے اور شرح سود کو ویتنام اور انڈونیشیا جیسی ہم مرتبہ معیشتوں کے برابر لایا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو، حکومت انسداد غربت اور سماجی تحفظ کے پروگراموں کی مالی اعانت کے لیے کافی رقم بچا سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بڑے ترقیاتی منصوبوں اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم دستیاب ہو سکتی ہے۔ کمر توڑمہنگائی جس کے اسباب حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں، اس کے اثرات سے نمٹنے کا یہی حل ہے ۔درحقیقت شرح سود اور افراط زر کے درمیان تعلق کی تفہیم میں ماہرین نے بہت دھوکاکھایا ہے۔ درسی کتابوں کے نظریات بتاتے ہیں کہ شرح سود میں اضافہ افراط زر کو کم کرتا ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاریخی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بلند شرح سود بلند افراط زر کی طرف لے جاتی ہے، جبکہ کم شرح سود افراط زر کو کم کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر برازیل میں 2017 میں شرح سود 14 فیصد تھی۔ برازیل نے تین سال میں شرح سود کو کم کر کے 2 فیصد کر دیا اور افراط زر نے بھی اسی رجحان کی پیروی کیاور افراط زر 11فیصدسے کم ہو کر 5فیصدپر آ گئی۔ پوری دنیا اور پاکستان سے اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہیکہ بلند افراط زر کا تعلق بلند شرح سود سے ہے۔ یہ مشاہدات مقبول عام انفلیشن ٹارگٹنگ فریم ورک کے بالکل برعکس ہیں جس کے مطابق شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم ہوتی ہے۔ کرونا بحران کے بعد آنے والی مہنگائی کی لہر سے نمٹنے کیلئے دو درجن سے زائد ممالک نے شرح سود میں اضافہ کیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی ملک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہ بات زیادہ قابل تعجب نہیں کیونکہ عمومی معاشی نظریات کے مطابق سپلائی سائیڈ افراط زر کے وقت بلند شرح سود مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے،اور افراط زر کی موجودہ لہر بھی سپلائی سائیڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ترقی یافتہ معیشتوں نے حالیہ شدیدمہنگائی کے باوجود شرح سود میں اضافہ نہیں کیا۔ تاریخی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شرح سود میں کمی سے افراط زر میں کمی ہوتی ہے، لہذا اس وقت ایک بہترین آپشن شرح سود کو کم کرنا ہے جس سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے وافر رقم کی بچت ہو گی۔ شرح سود میں کمی سے افراط زر کا خوف غیر حقیقی ہے۔ اس وقت دنیا کے 22 ممالک میں شرح سود صفر ہے اور ان میں سے کسی بھی ملک میں افراط زر پاکستان سے زیادہ نہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شرح سود مہنگائی سے کم ہو تو بینک حکومت کو قرض دینے کے لیے تیار ہوں گے ؟ درحقیقت آج بیشتر ممالک میں شرح سود افراط زر سے کم ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں آج شرح سود 0.25فیصد ہے، جب کہ افراط زر 5 فیصد سیزیادہ ہے۔ اسی طرح برطانیہ، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر کئی ممالک میں افراط زر شرح سود سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان میں ایسی شرح سود کا انتخاب کرتا ہے تو یہ کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہوگی۔کمرشل بینک کیلئے سرکار کو قرض دینے سے انکار ممکن نہیں کیونکہ انہوں نے اس وقت سرکارکو تقریباً 26000 ارب کے قرض دے رکھے ہیں، اور ان کے لیے سرمایہ کاری کا متبادل موقع تلاش کرنا ممکن نہیں۔ فرض کریں کہ شرح سود میں کمی کے سبب کمرشل بینک 1000 ارب سرکار کو دئے گئے قرض سے نکال کر پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کاروبار اور صارفین کی فنانسنگ کے لیے سستی شرح پر ایک بڑی رقم دستیاب ہوگی۔ یہ معیشت کے لیے ایک انتہائی مثبت خبر ہوگی جس سے کاروبار اور معیشت کو بڑا فروغ ملے گا۔