کیا ہمارے معاملات کا ذمہ دار صرف آئی ایم ایف ہے

اپوزیشن اور حکومتوں کا ہمیشہ یہ جھگڑا جاری رہتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ملک کو گروی رکھ دیا گیا ہے لیکن جب وہ خود اقتدار میں آتے ہیں توخود قرض لے کر ملک کو مزید قرضوں میں پھنسا دیتی ہیں اور برائی کا چکر سالہا سال تک جاری و ساری رہتا ہے پاکستان 1950ء سے آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کر رہا ہے ۔ہر حکومت اپنے اپنے دور میں ان پروگراموں سے مستفید ہوتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت بھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جب بجٹ کے اخراجات پورے نہ ہوئے تونہ نہ کر کے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ۔لیکن یہا ں یہ سوال ہے کہ کیا ہمارے تمام معاملات صرف آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے خراب ہو رہے ہیں یا ہم اپنی غلطیوں اور کو بھی آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈال کر مزید بلنڈرز کر رہے ہیں؟ اس موضوع پر ماہر اقتصادی امور فرخ سلیم نے خوبصورت تجزیہ کیا ہے ۔ مثال کے طور پر پٹرول کی قیمت 127سے 146روپے فی لیٹر ہو گئی، گندم کی قیمت 35سے 70روپے کلو ، چینی کی قیمت 55سے 150کلو تک پہنچ چکی ہے تو....یار لوگ آئی ایم ایف کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔اسی طرح الیکٹرسٹی کی قیمت گزشتہ 3سال میں 10سے 22روپے فی یونٹ پہنچ چکی ہے تو کیا اس کی بھی آئی ایم ایف ہی ذمہ دار ہے ؟ اگر ڈالر 123سے 175تک پہنچ چکا ہے تو کیا یہ بھی آئی ایم ایف کا قصور ہے ؟ایک عام فرد ، ایک ٹیچر یا ایک سرکاری افسر کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن اصل ملکی صورتحال کیا ہے اس کا ایک مختصر سا جائزہ لینا ضروری ہے ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ حکومتی Commodities Operation یعنی زرعی اجناس بشمول گندم کی حکومتی اداروں کے ذریعے
خریدو فروخت اور ذخیرہ کرنے کی بے ضابطگیوں کے نتیجے میں ہونے والے 750 بلین روپے کا ملکی خزانے کو نقصان پہنچا یا جائے ؟کیا ہماری حکومت کو آئی ایم ایف نے مشورہ دیا تھا کہ1.1میٹرک ٹنچینی کو ایکسپورٹ کردے جبکہ ملک میں پہلے ہی چینی کی شدید قلت تھی ؟ دوسرا سوال یہ ہے حکومت پنجاب کو کس حکیم نے کہا تھا کہ 3بلین کی رقم سے شوگر ملوں کو سبسڈی دے جائے، جس نے اپنے تہیں ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ؟ کس نے کہا تھا کہ اپنی ایکسپورٹ کوصرف 2بلین جبکہ امپورٹس کو 6.5بلین ڈالر تک لے جائیں ؟ آئی ایم ایف کبھی بھی اپنے ممبرزسے تقاضا نہیں کرتا کہ اپنی کرنسی کی قیمت کو کم یا ڈی ویلیو کردیںبلکہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت صورتحال کو مارکیٹ کے حالات پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کبھی بھی براہ راست نہیں کہتا کہ الیکٹر سٹی ریٹس کو بڑھا دیا جائے بلکہ اس کا بنیادی اصول یہ تقاضا کرتا ہے کہ الیکٹرسٹی کی پیداواری لا گت کے مطابق اس کی پروڈکشن کی پوری قیمت وصول کی جائے۔ کیا پھر آئی ایم ایف نے ہی کہا تھا کہ اس خطہ ارض پر سب سے مہنگی بجلی ہی خریدی جائے ؟ کیا پھر یہ آئی ایم ایف نے ہی کہا تھا کہ چار سو بلین کی رقم کی بجلی کی چوری کو جائز قرار دے کر اس کے بارے میں پوچھا ہی نہ جائے ؟ اسی طرح آئی ایم ایف اپنے ممبرز کو یہ نہیں کہتا کہ وہ کارٹلز Cartelsیا کاروباری اورصنعتی جھتے بندیوں کی سپورٹ کرے ۔بلکہ یہاں بھی بنیادی اصول یہ بنتا ہے کہ چیزوں یا پراڈکٹس کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کی فورسزیا عوامل خود کریں ! ہاں یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف ایک ’’دیوتا‘‘کی طرح ایک بہت بڑا مالی ادارہ ہے جس کے استعمال کا اختیار صرف اس کے ممبرزیا شیئرہولڈرزکے پاس ہے اور یہ مت بھولیں کہ اس کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر یو ایس اے، امریکہ ہے اور یقینی طور پر یو ایس اے کا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور آئی ایم ایف بھی اس سے مبرا نہیں ہے ۔پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی نے ہمارے سر پر بندوق رکھی ہوئی ہے کہ ہم ضرور آئی ایم ایف کے پاس جائیں ! اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو ہم اپنی غلطیوں بلنڈرز اور بے وقوفیوں کی بنا پر جاتے ہیں مشہور امریکی اکانومسٹ جیفری سوشے نے کہا تھا کہ وہ غریب ملک جو اپنی بجٹ کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے ان کے لیے آئی ایم ایف بذات خود ایک ایسا ہتھیار ہے جوقر ض کے بدلے ان کی ضروریات پوری کر کے ان سے اپنے کام لے سکتاہے۔ نو بل انعام یافتہ اکانومسٹ Joseph Stigilitzکے مطابق دنیا کے غریب ترین ممالک میں آئی ایم ایف نے جو پالیسیاں متعارف کروائی ہیں وہ ان کے حالات سنوارنے کے بجائے نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں ۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا گزشتہ 75سال میں آئی ایم ایف نے کسی ملک کے معاملات کو ٹھیک کیا ہے ؟ پھر ہم نے کیسے فرض کر لیا ہے کہ آئی ایم ایف شاہد ہمارے ہی معاملات کوسنوارنے کے لیے بنا یاگیا تھا ؟ یاد رہے کہ پاکستان کے معاملات کو صرف پاکستان کی لیڈر شپ ہی حل کرسکتی ہے، پھر جب ہماری اپنی قیادت اپنے ووٹرز کے مسائل کو حل نہیں کر سکتی تو اپنے دامن میں جھانکنے کے بجائے آئی ایم ایف ہی کو ٹارگٹ سمجھ کر تنقید کانشانہ بنایا جاتا ہے۔لیکن ہمارا یہاں ہر گز مقصد نہیں ہے کہ ہم آئی ایم ایف کی پا لیسیوں کی وکالت کریں ۔ اگر ہم اپنا گھر ٹھیک کر لیں، بر وقت عوامی فیصلے کریں جس سے ملک استحکام آئے تو ہم کسی حد تک اپنا مقصدحاصل کر سکتے ہیں ۔ ہمارے وزیر خزانہ شو کت ترین نے پر یس کو بتا یا ہے کہ ایک بلین ڈالرکی قسط کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے ہماری ڈیل مکمل ہو چکی ہے ۔اس ڈیل میں آئی ایم ایف نے اپنی سخت شرائط منوائی ہیں جس میں جی ایس ٹی کی استثنیٰ ختم کر کے اور پٹرول کو مزید 30 روپے تک مہنگا کر کے منی بجٹ کا سہارا لینا پڑے گا اور اگلے سال 12جنوری تک اس وعدے کو پارلیمنٹ سے منظور کرانا پڑے گا !