''قطار میں کھڑے چہرے''

سلمی صنم کے افسانوں میں سے ایک افسانہ میری یادوں میں رچ بس چکا ہے، بطور افسانہ نگار اور ناول نگار میں نے ''قطار میں کھڑے چہرے'' کو ایک نئی نظر سے دو بار پڑھا۔ اس افسانے کا پس منظر مغربی افریقہ کے ملک لائیبریا میں ایبولا سے ہونے والی تباہ کاریوں سے متعلق ہے۔ سلمی صنم نے جس مہارت سے افسانے کو تراشا ہے، مجھے پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایبولا سے ہونے والی مہلک تباہ کاری میرے سامنے ہو رہی ہے۔میں اس افسانے کو سلمی صنم کے وجدان سے منسلک کرنا چاہ رہا ہوں جس کی تصویر کشی میں ایک پیغام پنہاں ہے، کیونکہ کرونا نے دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے، اور سلمی صنم نے ایبولا کے متعلق جو تصویر کشی کی تھی وہ باور کروانا چاہ رہی تھیں کہ اس طرح کے وبائی امراض دنیا کے کسی خطے میں پھیل جایا کرتے ہیں اگر اس کا فوری طور پر تدارک نہ کیا جائے،مزید یہ کہ انسانیت معدومیت کے خطرے کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ بطور حیاتیاتی ماہر انہیں وبائی امراض کے متعلق ایک خاص احساس بھی تھا، جس کی وجہ سے ان کا یہ افسانہ ایک مکمل تصویر کشی کرتا ہے ایک بے بسی کی، افسانے کے مرکزی کردار فلورا کی بے بسی،کہ وہ کس قدر بے بس ہو گئی تھی۔ اور پھر آپ لوگ دیکھیں کہ 2019 سے اب تک کرونا لاکھوں جانیں نگل گیا ہے، مگر ہم لوگوں نے سلمی صنم جیسے افسانہ نگاروں سے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے۔ ہم تو شاید ماسک لگانا بھی نہیں سیکھ سکے ہیں، اسی طرح گلے مل رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، شادیوں میں سماجی فاصلہ نہیں رکھتے ہیں، بے دھڑک بازاروں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ ایک آفت آئی ہوئی ہے مگر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ بغیر ماسک کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں اور کرونا کی تباہی کو خود دعوت دیتے ہیں۔ کرونا کو مذاق سمجھنے والوں کے لئے اس افسانے میں سے چند سطور پیش خدمت ہیں: وہ اداس دل گرفتہ اور بوجھل سی شام تھی جب فلورا نے دیکھا کوے قطار میں کھڑے ہیں اور آسمان پرندوں سے بھرا ہے۔ دفعتہ کہیں سے Hipco کی ریش میوزک ابھری اور فلورا کو لگا سر میں درد کی
شدید لہر اٹھی ہے جو سرکتے ہوئے نیچے کمر کی طرف جا رہی ہے۔ ایبولا، وہ خوف میں نہا گئی، کک، کیا میں بھی۔وہ اولین اگست کے شرربار دن تھے اور لائیبریا پر جیسے قہر ٹوٹ پڑا تھا۔حکومت نے جابجا پوسٹرز لگا رکھے تھے جن پر صاف لکھا ہوا تھا کہ ایبولا حقیقت ہے مگر کوئی یقین کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ حکومت کی نئی چال ہے۔ دراصل ایبولا کہیں
نہیں ہے۔مگر مرنے والوں کی ایک بھاری تعداد یہ اعلان کر رہی تھی کہ ایبولا ہے اور بالکل ہے۔ اب آپ تمام لوگ دیکھیں کہ ہمارے زیادہ تر لوگ کرونا سے بالکل خوف نہیں کھاتے، اس کے بارے میں طرح طرح کے سازشی نظریات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اگر کسی کو نہیں یقین تو وہ ان لوگوں کے خاندانوں سے جا کر پوچھے جو کرونا کے کرب سے دوچار ہوئے ہیں۔ میں ہر بندے سے یہ التماس کرتا ہوں کہ کرونا جیسے وبائی مرض کو سمجھنا ہے تو سلمی صنم کا افسانہ ''قطار میں کھڑے چہرے'' ضرور پڑھیں تاکہ آپ لوگوں کو پتہ چلے کہ وبائی آفت کیا ہوتی ہے۔