تحریک طالبان سے مذاکرات کا مستقبل

نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قیادت میں اتحادیوں کے حملوںکی وجہ سے پاکستان کے مذہبی گروہوں میں بالخصوص اور قبائلی علاقوں میں موجود لوگوںمیں بالعموم اشتعال پیدا ہوا۔ مذہبی گروہ جن میں جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن) ، جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ( سمیع الحق ) ، جماعۃ الدعوۃ ، مرکزی جمعیت اہلحدیث اور جمعیت علماء پاکستان ( بریلوی مکتبہ فکر) سمیت تمام چھوٹی جماعتیں دفاع پاکستان و افغانستان کونسل کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکی اتحاد کو کسی صور ت پاکستانی سرزمین یا فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دے ۔ اپنے اس مطالبہ کے لیے ملک کے طول و عرض میںاجتماعات اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا جن میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے اور بعض جگہوں پرمظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا ۔ دوسری طرف قبائلی علاقوں میں ایک بے ہنگم ہجوم جمع ہونے لگا جس کا مقصد افغان سرزمین پر امریکی حملوں کے خلاف طالبان کا ساتھ دینا تھا ۔ اس موقع پرریاست نے جو فیصلہ کیا( قطع نظر اس کے کہ وہ درست تھا یا غلط) اس کے لیے عوامی سطح پر بھی قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ حالات کی سنگینی کے باوجود سیاسی و مذہبی قیادت ایک موقف اپنانے میں ناکام رہی ۔ اس کا سارا الزام سابق صدر مشرف کو دینا بھی درست نہیں کیونکہ ہماری قومی سیاست کا المیہ یہی رہا ہے کہ ہم سیاسی مفادات کو ذیادہ تر اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں تاہم صدر مشرف کا یہ قصور ضرور موجود ہے کہ انہوں نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشاورت میں سیاسی و مذہبی قیادت کو شامل نہیں کیا ۔ اگرچہ اس وقت پاکستان کے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا تاہم اس کے بعد جن اثرات کا سامنا کرنا پڑا وہ مشاورت سے کم ہو سکتے تھے ۔ دینی و مذہبی قیادت کا المیہ یہ رہا ہے کہ جب تک ایسے معاملات پر شدید ردعمل نہ دیا جائے وہ عوامی سطح پر اپنا اثر کھو دیتی ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں پہلے سے موجود نفاذ شریعت کی تحریک نے اپنے قدم جمائے ہوئے تھے اور باقی کام پاک افغان دفاع کونسل کے قائدین کی امریکہ کے خلاف جہاد پر ابھارنے والی تقاریر نے پورا کر دیا ۔ اس کے نتیجہ میں قبائلی علاقوں کے افراد قیادت کے بغیر ہی جہاد کے نام پر اکٹھے ہونے لگے اور افغانستان کی طرف رخ کرنے لگے۔ دوسری طرف افغان طالبان نے عالمی اتحاد کے خلاف پسائی اختیار کرنے کو ترجیح دی اور پہاڑوں میں روپوش ہونے لگے امریکی قبضہ کے بعد افغان طالبان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی پکڑے گئے جو پاکستان سے جہاد کی نیت سے پہنچے تھے جبکہ طالبان اور القاعدہ کے جو رہنما وہاں سے پسپا ہوئے تھے وہ پہاڑی دروں کے ذریعے پاکستانی قبائلی علاقوں میں پہنچ کر روپوش ہونے لگے ۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے پاکستان نے قبائلی علاقوں میں مسلح افراد کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو بھی ردعمل کے متعلق غلط اندازوں کے باعث بہت سے ایسے گروپ سامنے آنے لگے جو پاکستانی فورسز کے خلاف مزاحمت کرنے لگے ۔ یہ گروپ کسی ایک کی قیادت میں اکٹھے نہیں تھے بلکہ ردعمل کے طور پر سامنے آئے اور جو اثرورسوخ رکھنے والا کمانڈر تھا اس کے سائے تلے مختلف مسلح افراد جمع ہو کرسیکورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے ۔ 2004میں حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پہلا شکئی امن معاہدہ ہوا تاہم اس وقت تک پلو ں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا ۔ مزاحمتی کمانڈر نیک محمد سے کیے گئے اس معاہدے کا اختتام نیک محمد کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے ساتھ ہو گیا۔ چونکہ سیکورٹی فورسز پر حملے نہیں روکے گئے تھے اس لیے اس معاہدے سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ۔ 2007میں سراروغہ کے مقام پر پھر امن معاہدہ ہوا لیکن اسی دوران سکائوٹس قلعہ پر دہشت گردی نے اس معاہدے کی تکمیل نہ ہونے دی ۔2008میں ایک معاہدہ ایک اور مقامی کمانڈر منگل باغ سے کیا گیا جبکہ 2009میں نفاذ شریعت کے لیے معاہدہ ہو ا لیکن جب سیکورٹی فورسز،اسکولوں اور سرکاری و غیر سرکاری املاک پر حملوں کا سلسلہ نہ رکا اور دہشت گردوں کے گروپ سوات اور مالاکنڈ تک پہنچ گئے تودہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن راہ حق اور راہ راست کا آغاز کیا گیا۔ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے جنوبی و شمالی وزیرستان کو دہشت گروپوں سے پاک کرنے کے لیے پاک فوج کے جوانوں نے کارروائیوں کا آغاز کیا اس میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کے سلیپر سنٹرز کے خلاف بلاتفریق آپریشن ہوئے ۔ ان تمام کارروائیوں میں فوج کے جوانوں نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے جانثاری کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس تمام عرصہ میں پاکستانی قوم نے بھی ایک بڑی قیمت ادا کی ۔تاریخ کے صفحات میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے پاکستانی قوم نے بھی فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں اوراب تک سترہزار سے زائد جانیں قربان ہو چکی ہیں ۔ ایک طرف افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں عالمی اتحاد اپنی تمام قوت کے باوجود بھاگ رہا تھا تو دوسری جانب پاکستانی فورسز کم وسائل کے باوجود دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیت چکی تھی بلکہ تباہ حال علاقوں میں عوام الناس کے لیے تعمیر کا سلسلہ بھی شروع کیا جاچکا ہے جو بہت حد تک مکمل بھی ہو چکا ہے۔ افغانستان کے امریکی انخلاء کے بعد یہ پہلی دفعہ ہے کہ حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ایک بارپھر دہشت گردی میں ملوث چند گروہوں سے مذاکرات کیے جارہے ہیں تاہم ماضی کی تاریخ دیکھی جائے تو اس کی کامیابی کے اثرات کم نظر آتے ہیں تاہم ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار اداکرنے والے افغان طالبان کے لیے یہ ایک بڑا متحان ہوسکتا ہے ۔ ان مذاکرات سے اگرچہ کوئی خاص کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی تاہم یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بہت سے ایسے افراد جو افغانستان کی وجہ سے ان دہشت گرد گروہوں کا حصہ بن گئے انہیں الگ کیا جا سکتا ہے۔ وہ افراد جو گمراہ کر دیے گئے انہیں دوبارہ قومی دھارے میں لانے کے لیے بہت سارا ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے جس پر سیکورٹی فورسز نے خاصا کام کیا ہے ۔دوسری طرف ان مذاکرات کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسے پارلیمینٹ میں پیش کیا جائے ۔دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ جو گروہ یا افراد دہشت گردی کے سنگین واقعات میں ملوث ہیں انہیں قانون کے سامنے پیش کیے بغیر معافی دینا قوم کے ساتھ زیادتی ہو گی ۔ چونکہ یہ مسئلہ قومی سلامتی کے متعلق ہے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کو اپنے سیاسی اختلافات اور مفادات ایک طرف رکھتے ہوئے اجتماعی حیثیت سے مل بیٹھنا چاہیے۔اس موقع پر ترکی صدر طیب اردگان کا یہ قول یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ’’
کوئی بھی ہم سے یہ توقع نہ رکھے کہ ہم اپنے قومی تحفظ کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ایک ہی چھت تلے اور ایک ہی پلیٹ فورم پر جمع ہوں گے،ہم کسی بھی ایسے خون آلود ہاتھوں والوں جتھے کو ایک جائز کردار کی حیثیت نہیں دے سکتے‘‘۔