بچے کے مستقبل کا سوال ہے
یونیورسٹی کے طلبہ جب بریسٹ فیڈنگ سے متعلق اپنے کورس اسائنمنٹس کے لیے سروے کرتے ہیں، تو تین طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔ وہ خواتین جو اپنے فگر یعنی خوب صورتی کے حوالے اتنی حساس ہوتی ہیں کہ نوزائیدہ کو دودھ پلانے کا سوچ کر ہی گھبرا جاتی ہیں۔ دوم وہ خواتین جب ان سے اس بارے سوال کیا جاتا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہاں وہ بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، اور سمجھتی ہیں کہ ماں کے دودھ سے بڑھ کر اچھی خوراک اور کوئی نہیں۔ اور تیسری وہ خواتین جو ماں کے دودھ کی اہمیت سے ناآشنا ہوتی ہیں، لیکن اگر صحت کا کوئی مسئلہ نہ ہو، تو وہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ یعنی ماؤں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو فطری عمل کے آگے سر تو جھکاتی ہیں لیکن انھیں صحت اور ناقص غذائیت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، اور یوں ایسی بہت سی مائیں ہیں جن کے بچے میل نٹریشن کی وجہ سے ایک انتہائی مفید اور صحت مند، اور ابتدائی زندگی میں صحت کے لیے نہایت ضروری غذا سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی اہمیت کے حوالے سے ایک سطح پر کافی ابتدائی شعور پایا جاتا ہے، لیکن صحت کی دوسرے مسائل کے ساتھ مل کر بریسٹ فیڈنگ سے متعلق عام صورت حال خاصی تشویش ناک ہو جاتی ہے۔ لیکن عوامی سطح پر شعور کی تھوڑی سی بہتری صورت حال کو کچھ بہتر کر سکتی ہے، مگر مسئلہ ان علاقوں کی رہائشی خواتین کا بھی ہے جو پس ماندہ سمجھے جاتے ہیں، اور جہاں کھانے پینے اور صحت و صفائی کے تصورات ناپید ہیں۔ اس صورت حال کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب شہروں میں رہنے والی مائیں غیر حقیقی وجوہ کے سبب اپنے دودھ سے بچوں کو محروم کر دیتی ہیں، خواہ وہ خوب صورتی کے لیے پریشانی ہو یا مناسب غذا نہ لینے کے سبب دودھ کا نہ اترنا ہو، یا ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری کہ وہ شروع ہی سے یا چند ماہ کے بعد ہی بچوں کو اپنا دودھ پلانا بند کر دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ گھریلو خواتین بھی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے یہ اہم ترین کام ترک کر دیتی ہیں اور نوزائیدہ بچوں کو فارمولا دودھ پر ڈال دیتی ہیں۔ماں کے دودھ کی اہمیت اور خصوصیات پر بہت ساری تحریریں لکھی جا چکی ہیں، آپ نے بھی پڑھی ہوں گی، لیکن سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہ عمل یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ طور پر اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے بچے کی اٹھان، اور اس کی صحت اچھی بنتی ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ خود ماں بھی اس عمل سے کئی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتی ہیں، جیسا سرطان جیسا خطرناک مرض، اور ہڈیوں کا بھربھرا پن۔ محققین کے مطابق دودھ پلانے سے آسٹیوپوروسس سے ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ جو خواتین دودھ پلاتی ہیں ان کی آنتوں میں غذا سے کیلشیم کا انجذاب بڑھ جاتا ہے، اور پیشاب میں کیلشیم کے ضائع ہونے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی صحت کے لیے مکمل غذا تو ہے ہی، تاہم یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ دنیا بھر میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل موت کے منہ میں چلے جانے والے 8 لاکھ 20 ہزار بچوں کی جان اسی دودھ سے بچائی جا سکتی ہے۔ اس دودھ میں وٹامن اے وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، اس میں ضروری فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو نومولود کے دماغ، آنکھوں اور خون کی نالیوں کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں، اس میں پروٹین کی بھی زیادہ مقدار ہوتی ہے، خاص طور سے ایسے پروٹین جو انفیکشن کو کنٹرول میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں انفیکشن مخالف اجزا بھی ہوتے ہیں جو مختلف بیماریوں سے ننھے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ بچوں کو دست، سانس کی بیماریوں اور کان کی انفیکشن کے علاوہ دماغ کی جھلی کی سوجن اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن سے بھی محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 37.7 فی صد مائیں پیدائش کے 6 ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، اس وجہ سے ملک کے 44 فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل پائے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق ملک میں 2011 کے مقابلے میں 2018 تک بچے کی پیدائش کے پہلے گھنٹے کے اندر انھیں ماں کا دودھ دینے کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا، اور یہ شرح 40 فی صد سے بڑھ کر 45.8 فی صد تک پہنچ گئی۔ اس سروے کے مطابق صوبائی سطح پر بچے کی پیدائش کے پہلے گھنٹے میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں 61 فی صد، پنجاب میں 44 فی صد، سندھ میں 50 فی صد جب کہ بلوچستان کی 20 فی صد ماؤں نے بچوں کی پیدائش کے بعد انھیں اپنا دودھ پلایا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی ماؤں کی یہ شرح ناکافی ہے کیوں کہ اس وقت ہر 10 میں سے صرف 4 بچے ہی مکمل طور پر ماں کے دودھ پر انحصار کر رہے ہیں۔ سندھ کے کچھ علاقوں میں رسم و رواج بھی بریسٹ فیڈنگ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، جہاں بچوں کو پیدائش کے بعد بکری کا دودھ پلایا جاتا ہے، اور ماں کے ابتدائی پیلے رنگ کے دودھ کو نقصان دہ سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ اینٹی باڈیز اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ایک اور اہم نکتہ جو بہت ضروری ہے کہ یاد رکھا جائے، یہ کہ بچے کے اچھے مستقبل میں بھی اس ماں کے دودھ کا اہم کردار ہے۔ اگر بچے کو شروع میں ماں کا دودھ ملے، اور خود ماں کی صحت اچھی ہو، تو بچے ایک بہت اہم مسئلے سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہے اسٹنٹنگ کا، جو صحت کی ایک ایسی پریشان کن صورت حال ہے جس میں بچے کا قد اس کی عمر کے لحاظ سے کافی کم رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ ناقص غذائیت ہوتی ہے، اور ماں کا دودھ غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بچپن میں اسٹنٹنگ انسانی ترقی میں سب سے اہم رکاوٹوں میں سے ایک ہے، جو عالمی سطح پر 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 162 ملین بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بچے کی زندگی کے پہلے ایک ہزار دنوں کے دوران ناکافی غذائیت اور انفیکشن کے بار بار ہونے کا، ایک بڑی حد تک ناقابل واپسی نتیجہ ہے، یعنی ہونے والے نقصان کو پھر واپس نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹنٹنگ سے نہ صرف افراد بلکہ معاشروں پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یعنی معاشرے کی تعمیر کرنے والے افراد میں اس کی وجہ سے سمجھ بوجھ کی کمی ہمیشہ کے لیے رہ جاتی ہے، جسمانی صحت خراب ہوتی ہے، افراد کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے، اور ذیابیطس بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔