ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
ایک کہاوت ہے کہ کسی نے بلی سے سے پوچھا کہ وہ کیوں بدحواسی کے عالم میں بھاگ رہی ہے تووہ بولی اونٹوں کو بیگار میں پکڑا جارہاہے کسی نے بلی سے پوچھا تمھارا اونٹوں سے کیا تعلق تو وہ بولی کہ اگر کوئی سازش کے تحت یہ کہہ دے کہ میں اونٹ ہوں تو میں تو ماری گئی یہ سازش کی سیاست بھی عجیب ہے جس میں ایک تعمیری سوچ کی بجائے تخریبی کاروائیاں زور پکڑ لیتی ہیں سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اکیسویں صدی کے موڑ پر ہماری سیاست کہاں کھڑی ہے جہاں بیان حلفی آڈیوز اور ویڈیوز کی سیاست اداروں کے وقار کو مجروح کرنے پر تلی ہے وہاں پاکستان کو کمزور کرنے کی طرف ایک منفی اقدام ہے سیاسی اقدار اور روایات کی کھیتی میں جب منفی رحجانات جنم لیتے ہیں تو اس کے کڑوے کسیلے ثمرات آنے والی نسلوں کو بھگتناپڑتے ہیں اور ترقی کے ثمرات پہنچنے سے پہلے یہ کڑوے ثمرات ان تک پہنچ جاتے ہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ویڈیو کو منظرعام پر لانا اور اس میں تبدیلیاں کرکے اداروں کو کمزور کرنا ایک پرانا کھیل ہے سابق چیف جسٹس نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا ہے لیکن اس ویڈیو نے کئی باتوں کو متنازعہ بنادیا ‘ اس ویڈیو کی صداقت کے لئے تحقیقات انتہائی ضروری ہیں تاکہ عوام کے سامنے درست حقائق آسکیں اور اگر یہ مخالفین کی طرف سے ایک گھناؤنی سازش ہے تو اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف قدم اٹھانا ضروری ہے مخافین کی منفی سرگرمیوں کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا جب صدارتی الیکشن کی مہم میں تین قسم کے رحجانات نے جنم لیا ذاتی مفادات کے لئے وفاداریاں لوٹوں اور لفافوں کے کلچر میں بدل گئیں مستقبل کے لئے اجتماعی مفادات کے حصول کی بجائے اقتدار کیلئے اپوزیشن کو اختلاف برائے اختلاف کے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرکے محض حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اجتماعی مہم جوئی کے کلچر کو پذیرائی ملی حکومت اور اپوزیشن کا ایک پلیٹ فارم پر اجتماع کا فقدان اور قوت برداشت کا خاتمہ ہوا آج ہم انہی عناصر کا شکار ہیں کسی کالم نگار نے لکھا کہ ان ویڈیوز اور مستقبل میں مزید آنے والی ویڈیوز کے پیچھے کیا سچائی ہے عوام کے سامنے لانا ضروی ہے جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو عوام ان سچائیوں سے بہت دور ان معاشی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ باتیں بے معنی سی ہوجاتی ہیں گزشتہ دنوں راقمہ کی ایک پرانی کام والی کسی کام سے ملنے آئی آخر تان مہنگائی پر ٹوٹی مجھ سے برملا پوچھا باجی بھلا دسو عمران خان دی حکومت نوں کنا عرصہ رہ گیا میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں۔باجی مہنگائی کنی ودھ گئی۔ میں نے کہا تقریا دوسال ویسے مہنگائی ہردور میں رہتی ہے میرے اس جواب پر وہ جاتے جاتے رک گئی اور مڑ کر کہنے لگی نہیں باجی عمران خان دی حکومت سات سال رہ گئی اے سارے کہندے نیں ایماندا ر بندا اے فیر آوے گا عمران خان میں اسپورٹس مین اسپرٹ بدرجہ اتم موجود ہے حکومت سنبھالنے سے اب تک لامتناعی مسائل کا مقابلہ کیا اور عوام کو بھی تلقین کی قائد اعظم نے سیاست کو ایک شطرنج کا کھیل قرار دیا مخالفین کی چالوں کو سمجھنا اور اسی انداز میں جواب دینے کی مہارت حزب اقتدار یا حزب مخالف جس میں زیادہ ہو وہی بازی جیت جاتا ہے اور قوموں کے فیصلے تو شعور اور حوصلے سے ہوتے ہیں لیکن جہاں اداروں کی ساکھ پر سوال آئے وہاں مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے ہمارا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم فرشتہ صفت انسان کی تلاش میں رہتے ہیں بگاڑ پیدا کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ عدم استحکام کی طرف ریاست کو لانے میں اگر چوہتر سال لگ گئے تو دوستی میں اس سے دوگنا وقت درکار ہوتا ہے اپوزیشن کو اب کیوں خیال آیا کہ چیزوں کی دوستی کا وقت آگیا شبلی نعمانی کا قول ہے کہ چیزوں کی دوستی اسی میں پوشیدہ ہے کہ ریاست دوبارہ سے وہیں سے سفر کا آغاز کرے جہاں سے خرابیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ تو بڑا طویل ہے چیف جسٹس کی ویڈیو پر تحقیق اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ جو جمہوریت کی راہ مین روڑے اٹکاتے ہیں ان کی بیخ کنی ضروری ہے کہاں کی مٹی کہاں کا روڑا اکھٹا کرکے تیار کی گئی ویڈیو عدلیہ کے اعتماد کو مجروع کرنے کی ایک گھنانی سازش ہے قرارداد مقاصد اور تینوں دساتیر میں جو عدلیہ کی ازادی اور تحفظ کا احترام ہے اس میں مزید اضافہ ہو کسی شخص یا زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے عدلیہ پر اسکے کوئی اثرات مرتب نہ ہوں عدلیہ پراعتماد ہی ریاست کی کامیابی کی ضمانت ہے پاکستان جیسے ممالک میں جہاں مسائل کا اتنا انبار لگا ہوا ہے ایک مسئلہ حل کرو تو دو اور نکل آتے ہیں وہاں اس قسم کے منفی پروپیگنڈے کا ازالہ ضروری ہے وگرنہ ان محرکات کا انجام ذہنی فکری اور سیاسی انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے دنیا میں کسی ملک کی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں اداروں کا احترام ہو اور وہ ملک ترقی نہ کرپائے بقول غالب:
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
٭…٭…٭