فرض کا قرض باقی
حسب معمول ہم دونوں میاں بیوی شام کو باہر نکلے تو پھر سے کچھ موضوعات کی طرح ہمارا موضوع تھا رونگ سائیڈ سے آنیو الی گاڑیاں اور موٹر سائیکل جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ لاہور جیسی پْر ٹریفک سڑکوں پرغلط سائیڈ سے آنا معمول بن چکا ہے۔ اگرچہ چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں میںپہلے ہی یہ رواج عام ہوچکا ہے۔حسن نے کہا تم روز ان باتوں پر کڑھتی رہو گی اور یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہوگا لیکن مسائل کو اْجاگر کرنے پر میرا ضمیر مطمئن ہوتا ہے اور کم از کم میں نے اپنا کچھ فرض ادا کردیا ہے اور دوسری طرف ایک معدوم سی اْمید ہوتی ہے کہ شاید کسی صاحب اختیار کی نظر اس کالم پر پڑ جائے اور مسئلے کا تدارک ممکن ہوسکے۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے اس پْررونق سڑک پر شاید کوئی بہت بڑا حادثہ ہوا تھامجمعے کی وجہ سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ اگرچہ حادثے کی نوعیت تو معلوم نہ ہوسکی لیکن اتنا معلوم ہوگیا کہ رانگ سائیڈ سے آنے والی کسی گاڑی کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔اگلے روز جگہ جگہ ٹریفک پولیس کی ڈیوٹیاں بھی لگ چکی تھی اور ساتھ ہی اْن کوحکم تھا کہ غلط سائیڈ سے آنیو الے کو دوہزار روپے جرمانہ کیا جائے رات کو یہ خبر ٹی وی پر بھی نشر ہوچکی تھی۔ سسٹم ہی خراب ہو تو مسائل ہمیشہ مسائل ہی رہتے ہیں جو بڑھتے تو ہیں لیکن کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے ٹریفک پولیس کے جانثاربھائی حسب معمول موبائل فون پر گھنٹوں مصروف نظر آئے۔ چونکہ دن میں دوبار بسلسلہ روزگار گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو جو صاحب بہادر وردیاں پہنے صبح سویرے فون پر مصروف تو کبھی باتوں میں مصروف تھے وہ گھنٹوں بعد اسی حالت میں پائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بے شمارگاڑیاں اور موٹر سائیکل اْن کے پاس سے اْن کی آنکھوں میں دھول جھونکتے گزرتی چلی جارہی تھیں۔ اب نوٹس لینے والوں نے تو شاید سختی سے نوٹس بھی لیا اور ڈیوٹیوںپر ان موبائل فون کے پیروکاروں اور قوم کے جانثاروں کو روانہ تو کردیا لیکن ان کی اعلیٰ ترین کارکردگی کو جانچنے کا کوئی طریقہ کار مقرر نہ کیا۔ کیا ہم سب اپنے اپنے حصے کا بوجھ دوسروں کے حوالے کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ سارا دن کی فرض شناسی کو ظاہر کرنے کیلئے چند ایک چالان کرکے اپنی کارکردگی دکھادی جاتی ہوگی۔ زمانہ بہت ایڈوانس ہوچکا ہے۔ یہاں ضرورت ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اپنا فرض ان غلط راستوں سے آنیوالوں غلط سوچ رکھنے والوں کیلئے ادا کریں۔ ہم میںسے کچھ اپنی ڈیوٹی کریں جو دوسرے کرنے کو راضی نہیں ہیں۔اگر ہر معاملے کی ویڈیو وائرل ہوسکتی ہے تو پلیز ایسے سنگین اور سنجیدہ مسائل کی بھی نشاندہی کیجئے ان مسائل کی ویڈیو بنائیے اور جتنی ممکن ہوسکے ان کووائرل کیجئے۔ آخری حل ہمارے پاس یہی ہے اگر ہم اپنے بچوں، فیملی اور خود اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمت بھی خود ہی کرنی پڑے گی۔ عام مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ انتہائی کم عمر کے لڑکے موٹر سائیکل سوار بنے ہوئے ہیں اور کبھی ون ویلنگ کرتے ہوئے سڑکوں پر نظر آتے ہیں تو کبھی ضرورت سے زیادہ سپیڈ لگا کرایک دوسرے سے آگے نکلنے کا مقابلہ جاری رکھا ہوا ہوتا ہے زندگی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ جانیو الے اس دوڑ کے شہ سوار نظر آتے ہیں۔ لااْبالی پن، بے نیازی اور لاپرواہی نوجوان نسل کا وطیرہ بن چکاہے۔ایک ہی موٹر سائیکل پر فیملی کے چھ چھ افراد کو بٹھانا عام ہے۔اس ایک سواری کو رکشے کی شکل دیکر 10-10 لوگوں کوبٹھا لیا جاتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے ایسا کرنے کا اختیار بھی کیسے دیا جاسکتا ہے جبکہ یہ صورتحال سنگین حادثات کا باعث بنتی ہے۔ ہرگزرتے سال اور گزرتے دن کے ساتھ ان حادثات کی تعداد میںاضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے سالانہ حادثات کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو اس میں حیران کن حد تک اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔2009ء تا2010ء 9747حادثات ہوئے جن میں سے5344پنجاب میں واقع ہوئے اب انکی تعداد ہوشربا حد تک بڑھ چکی ہے، وجہ موٹر سائیکل جیسی سستی سواری کا عام ہونا ہے۔ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہونے والی اس سواری کی تعداد سڑکوں پر بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ اشارے توڑنا معمول ہے۔ اگر اب میںآخر میں یہ کہوں کہ انکی روک تھام کیلئے کوئی منظم لائحہ عمل ہونا چاہئے۔ اداروں کو اپنے فرائض ایمانداری سے نبھانے چاہئیں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر ماہر لوگوں کو ہی لائسنس جاری کرنے چاہئیں ، سڑکوں پر مامور پولیس کی بھی چیکنگ ہونی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کس حد تک نبھا رہے ہیں تویہ سب کہتے ہوئے مجھے یہ ساری باتیں ہزاروں بار کی کہی ہوئی لگتی ہیں۔ سچ پوچھیں تو کبھی کبھی اس سسٹم سے مایوسی سی ہونے لگتی ہے لیکن کیا ایساممکن ہے کہ اپنے ایماندار فرض شناسوں کے موبائل فون کی چیکنگ بھی ہونی چاہئے کہ آخر وہ کہاں کہاں کس کس مقصد کیلئے استعمال ہورہے ہیں؟آپ میں سے کچھ حساس اور درد دل رکھنے والے لوگوں سے بھی استدعا ہے کہ جہاں جہاںکچھ غلط ہورہا ہے وہاں اپنے موبائل کا حق ادا کیجئے۔ ویڈیو بنائیے اور قوم کو اس کا اصل چہرہ دکھائیے۔ ہم اپنے حصے کی شمع تو جلا ہی سکتے ہیں۔