ایٹمی پاکستان: خدشات و امکانات

دوسو سے زائد ممالک میں صرف نو ممالک ایسے ہیں جن کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے۔ ان میں سے پانچ ممالک اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ طاقتور اور فیصلہ ساز ادارے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں۔ تین ممالک ، بھارت، شمالی کوریا، اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جو ایٹمی دھماکہ کرچکے ہیں جبکہ اسرائیل واحد ملک ہے جو دھماکہ کے بغیر بھی مسلمہ ایٹمی ملک تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور شمالی کوریا کے علاوہ باقی سات ممالک معاشی اعتبار سے بھی مضبوط ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ دنیا کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے کنٹرول کرنے والے پانچ ممالک جو سلامتی کونسل کے مستقل رکن بھی ہیں، میں سے چین اور شمالی کوریا کی سرحدوں کے علاوہ دو ممالک کی سرحدیں بھی آپس میں نہیںملتیں، امریکہ اور روس ، امریکی شمالی ریاست الاسکا اور روسی سائبیریا کے درمیان سمندر ہونے کی وجہ سے جدا ہیں۔ اسی طرح امریکہ دیگر ایٹمی ممالک سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان آبی گزرگاہ انگلش چینل ہے جو دونوں کو جدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ایسے خطہ میں واقع ہے جو ایٹمی ممالک کا مسکن ہے، پاکستان کے جنوب مشرق میں بھارت، شمال مشرق میں چین، شمال میں روس، اور تھوڑی ہی دوری کے فاصلہ پر مشرق بعید میں شمالی کوریا ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک ہیں۔ جنوب مغرب میں ہمسایہ ملک ایران ایٹمی صلاحیت کے حصول میں کوشاں ہے۔ امریکہ اور مغرب کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ابھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ گویا پاکستان جنوبی ایشیا کے ایسے خطہ میں واقع ہے جو ایٹمی ممالک کا ایک طرح سے جنکشن یا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ پاکستان ان میں سے ایک مْلک بھارت سے براہِ راست اور روس سے بالواسطہ کھلی اور گرم جنگوں میں ملوث رہا ہے۔ اور اب بھی ہمسایہ ملک بھارت سے کشمیر تنازعہ کی وجہ سے اس خطہ میں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔
میں نے جس جغرافیائی محل وقوع اور پاکستان کی سلامتی سے جْڑے جن خطرات کا نقشہ آپ کے سامنے رکھا ہے، کیا کوئی ذی شعور شخص ایسا تصور بھی کرسکتا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہوجائے؟ پاکستان اور اس کی ایٹمی صلاحیت اب لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان کی بقا اس کے ایٹمی ملک رہنے کی صورت میں پنہاں ہے۔ پاکستان وقار اور عزت کے ساتھ عالمی برادری میں اپنا مقام اسی صورت برقرار رکھ سکتا ہے جب وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ اور برقرار رکھے گا۔ ورنہ خدانخواستہ ، بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
پاکستان کے ایسے دانشور جو جاپان، جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، برازیل یا اور دیگر کئی ممالک کا حوالہ دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل نہ ہونے کے باوجود یہ ترقی یافتہ، خوشحال اور با اثر ممالک ہیں ، ایسے لوگ وہ جغرافیائی و سیاسی حقیقت فراموش کردیتے ہیں جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے۔ یہ درست بات ہے اب تک کسی ایٹمی ملک پر حملہ نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ایک ایٹمی ملک نے دوسرے غیر ایٹمی ملک پر حملہ کرکے دوسری عالمی جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا تھا۔ پاکستان جب سے ایٹمی ملک بنا ہے تب سے ایٹمی ڈیٹرنس قائم ہے اور کسی ملک کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھے۔ ایسے ملک جو ایٹمی صلاحیت بننے کے خواہاں تھے اور قریب قریب پہنچ چکے تھے جن میں عراق، لیبیا، اور شام شامل ہیں ، ان کا حشر آپ کے سامنے ہے، تین ممالک پر جنگ مسلط کردی گئی اور آج یہ نہایت ابتر حالت میں ہیں اور خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ ان ممالک کی علاقائی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ برائے نام ہے، ٹوٹا پھوٹا وجود صرف عالمی ضرورتوں کی وجہ سے قائم ہے۔ ورنہ یہ تینوں ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اب وہاں کے عوام کی حالت دیدنی ہے۔
سیاسیات اور تعلقات بین الاقوام کے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں، خصوصاً جو عملیت پسند نظریات کے علمبردار ہیں کہ صرف طاقت ہی بقا کی ضامن ہوتی ہے، ہر ملک اپنی جنگ اپنی مدد آپ کے اصول پر لڑتا ہے۔ تمام ملک اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہوتے ہیں۔ سب کو اپنی بقا کے لیے جنگ کے لیے تیار رہنا چاہے چونکہ جنگ ناگزیر ہے اور ہو کے رہتی ہے، صرف طاقت کا توازن جنگ کے امکان کو دور لے جاسکتا ہے۔ کمزوری جارحیت کو دعوت عام دیتی ہے، بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
……………………(جاری)