اراضی جیتنے والی امت

’’ کن ‘‘ کہہ کر یہ سات زمینیں اور سات آسمان بنانے والے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اس زمین کو پیدا کیا تو اس کا تین چوتھائی حصہ پانی کا رکھا اور ایک چوتھائی خشکی جس میں پہاڑ ، میدان اورصحرا سمیت مختلف اقسام کی اراضی کا بستر بچھا دیا ۔خالقِ کائنات جو سب سے عظیم آرکیٹیکٹ اور آنے والے کل کے ایک ایک پل سے آگاہ ہے کہ ہر پل اس کی مرضی ہی سے بسر ہوتا ہے ۔ االلہ پاک نے ہر مخلوق کیلئے رزق اور بود و باش کا پورا پورا انتظام کردیا ۔ اب یہ تو طے ہے کہ زمین کی پیمائش میں اور اس کے قطر میں اضافہ تو ہونا نہیں اور دنیا میں آنیوالے ہر انسان اورجنگلی حیات نے بھی یہیں بسیرا کرنا ہے ۔ اسی زمین سے آکسیجن لینی ہے جس کیلئے مالک کائنات نے ایمازون کے جنگلات کو آکسیجن کے سب سے بڑے ذخیرے سے بھردیا۔ جہاں کے درختوں اور دنیا بھر کے درختوں اور پودوں کی آکسیجن ہر پل انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہے ۔ پہاڑوں پر گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سمندر بڑھ رہے ہیں تو کہیں پانی زمین کو چھوڑ بھی رہا ہے ۔اب طے ہے کہ زمین تو بڑھتی نہیں لہٰذا اوپر کی طرف جانی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ملٹی سٹوریز بلڈنگز بننا شروع ہوچکی ہیں ۔
روزنامہ نوائے وقت کے سٹاف رپورٹر کی خبر کے مطابق ملتان ڈویژن میںگزشتہ تین سہ ماہی کے دوران اموات کے مقابلے میں شرح پیدائش میں 40 فیصداضافہ ہوا ہے۔ مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق ملتان ڈویژن جو کہ خانیوال ، لودھراں ، وہاڑی اور ملتان کے اضلاع پر مشتمل ہے ، اس دوران 71 ہزار 889 بچے پیدا ہوئے جبکہ 39 ہزار 1193اموات رجسٹرڈ ہوئیں ۔اس رپورٹ کے مطابق بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹے زیادہ تعداد میں پید اہوئے جو کہ بیٹیوں سے تقریباً 7 فیصد زائد ہیں۔کہتے ہیں کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ یہی پیغام لے کر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب بھی اپنی تخلیق سے پُرامید ہے ۔ ہر آنے والا بچہ اپنا رزق بھی لیکر آتا ہے مگر اس رزق پر قابضین نے روشن دنیا کو اندھیرے کی طرف دھکیل رکھا ہے ۔
ڈاکٹرعبد الصبور ملک شیخ زید ہسپتال لاہور میں ایڈمنسٹریٹر تھے۔12 سال قبل ایک سانحے میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ۔ دیکھ یار آج سے دو تین دہائی قبل جو والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ، بہترین تربیت اور معاشرے کا فعال رکن بناسکتے تھے ان کے ہاں بھی چھ سات بچے تو ضرورہی ہوا کرتے تھے ۔ دوسری طرف غریب ان پڑھ وشعور والدین جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے عاری تھے ان کے بھی سات آٹھ بچے ہوتے تھے ۔ اس طرح سے ایک توازن کسی نہ کسی حد تک موجود ہی تھا۔ 1970 ء کے بعد خاندانی منصوبہ بندی اور پھر فیملی پلاننگ کا دور آیا ، بھر پور اشتہاری مہمات چلائی گئیں جیسے ’’بچے دو ہی اچھے ، کم بچے خوشحال گھرانہ ‘‘ جیسے سلوگن کا براہِ راست اثر تعلیم یافتہ طبقے نے لیا اور تبدیلی یوں آئی کہ جو والدین اپنی اولاد کو بہترین تعلیم ، اچھی خوراک اور مناسب معاشرتی تربیت دے کر انہیں فعال شہری بنا سکتے تھے، ان کی اولاد کم ہوتی گئی اور سات آٹھ سے کم ہوکر دو یا پھر زیادہ سے زیادہ تین پر آکر رک گئی جبکہ مزدور ،غریب ، خوانچہ فروش اور یومیہ اُجرت کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے ہاں تو اب بھی اسی طرح چھ سات بچے پیدا ہورہے ہیں کہ ان کے بچے چند ہی سال میں اس کیلئے کمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ڈاکٹر صبور کہتا تھا کہ اب اس عدم توازن کی وجہ سے جہالت ، جرائم، بیماریاں ، معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہوتا جائے گا جو کہ ہونے لگ گیا ہے اور اب معاشرتی بگاڑ کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے ۔ آج زرعی زمینیں کم ہورہی ہیں۔ زراعت سے وابستہ لوگ بھی بیروزگار ہورہے ہیں۔آبادی کا جن کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے اور کسی بھی سطح پر کوئی منصوبہ بندی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ اس جہالت نے جو سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ آلودگی میں ناقابل بیان اضافہ کردیا ۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے بچپن میں فیصل آباد میں پیدل سکول جاتے ہوے دسمبر اور جنوری میں کھالوں میں ٹھہرے پانی کے اوپر برف کی دبیز تہہ ہم خود توڑا کرتے تھے ۔ آج ہر قسم کی آلودگی نے سارے کا سارا نظام تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔
ایک انگریز سیاح نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستان میں سفر کرتے ہوئے اگر آپ کو سڑکوں پر اطراف میں اچانک گندگی کے ڈھیر ، درختوں کے ساتھ لٹکے پلاسٹک کے لفافے اور بدبو کے بھبھاکوں کا سامنا کرنا پڑے تو اپنی رفتار کم کرلیں کیونکہ یہ سب سے بڑی نشانی ہے کہ آگے کوئی نہ آبادی شروع ہورہی ہے ۔
بہت سوں کو یاد ہوگا کہ جب نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا ’’بابرکت‘‘ قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور سڑکات کی تعمیر ومرمت کیلئے پروفیشنل ہائی وے ڈیپارٹمنٹ ہوتا تھا تو دوران سفر جونہی سڑکوں کے اطراف میں تارکول کے ڈرم آ دھے زمیں دھنسے ہوئے نظر آتے اور ان پر سفید پینٹ ہوا ہوتا ، سڑک کے دونوں اطراف میں اچانک صفائی نظر آتی تو پتہ چل جاتا کہ کس ضلع کی حدود ختم اور کس ضلع کی حدود شروع ہوگئی ہے۔اس خوشگوار احساس کا اب کوئی اور تصور باقی نہیں رہا۔پنجاب میں شاید ہی کوئی ایسا ضلع ، تحصیل یا قصبہ ہو جس کے چاروں اطراف میںدیگر متعلقہ اداروں کے خصوصی تعاون سے ناجائز ہاؤسنگ کالونیاں نہ بن رہی ہوں۔پرائیویٹ ڈویلپرز کی کیا بات کریں یہاں تو سرکاری ادارے بھی اسی گورکھ دھندے میں مصروف ہیں ۔ صوبائی دارالحکومت کے گرد نواح میں صاف پانی کی سبزی کے جتنے بھی علاقے تھے وہ سارے کے سارے ہاؤسنگ کالونیوں کی زد میں آچکے ہیں ۔جس نبی آخرالزماں نے دل جیتے ان کی امت اراضی جیتنے میں لگ گئی ۔
45 سال قبل لاہور میں ٹھوکر سے لیکر بحریہ ٹاؤن تک سبزی اور بہترین فصلوں کی کاشت ہوا کرتی تھی۔33 سال قبل ٹھوکر سے 11 کلومیٹر دور ایل ڈی اے نے جوبلی ٹاؤن بنایا اور نہری پانی سے سبزی کی پیداوار کا سینکڑوں ایکڑ رقبہ ہر قسم کی کاشت سے محروم کردیا ۔تین دہائیاں گزرنے کے باوجودد مذکورہ ٹاؤن 20 فیصد بھی آباد نہیں ہوسکا۔ اور ابھی ابھی 80 فیصد پلاٹ خالی ہیں ۔ ملتان شہر کے اطراف آموں کے باغات جو خوبصورت منظر پیش کیا کرتے تھے وہ نظارہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ جونہی پی آئی اے کی فلائٹ ملتان میں لینڈنگ کرتے ہوئے بلندی کم کرتی تو ہر طرف آموں کے لہلہاتے باغات دور تک نظر آتے اور پیدل چلتے سڑکوں پر آموں کی خوشبو سونگھنے کو ملتی تھی ۔
ملتان کے میٹھے اور لذیذ آموں کا علاقہ دریائے چناب کی ذیلی پٹی میں قادرپور راں سے لیکر شجاع آباد تک تھا جو اب سارے کا سارا کالونیوں کی نذر ہوگیا۔ہزاروں خاندانوں سے روزگار چھین گیا اور لاکھوں پرندے بے گھر ہوگئے ۔ اور یوں دنیا کے میٹھے ترین آم کا ’’ قتلِ عام ‘‘ شروع ہوگیا۔کسی بھی لحاظ سے دیکھ لیں پاکستان میں ہر حوالے سے جہالت اور نفسا نفسی بہت حد تک بڑھ چکی ہے ۔اس خوبصورت ملک کو بد صورت بنا کر اپنی اولادوںکو باہر کے ملکوں میں آباد کرنے والوں نے اپنی دنیا ہی نہیں آخرت بھی برباد کردی ہے۔