دیارِ غیر میں پاکستان کے حقیقی سفیر

اسی طرح ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے جے وی چک 130 سے تعلق رکھنے والے ایک متوسط گھرانے کے ندیم موٹا جو روزگار کی تلاش میں تیس سال قبل یورپ چلے گئے تھے۔ندیم موٹا سپین اور فرانس میں گورنمنٹ کنسٹرکشن کے کاروبار سے منسلک ہیں یوم پاکستان پر انکی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں سافٹ امیج قائم کریں۔ یورپ میں موجود غیر ملکی سفرا اور ڈپلومیٹک کے اعزاز میں ایک ایسی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے مثبت کردار کو نمایاں ہوتا بلکہ پاکستانی مصنوعات کی تشہیر کر کے پاکستان میں وسیع زرمبادلہ بھی بھجوائے جانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کیلیفورنیا کے کیپٹل سیکریمنیٹو میں موجود ڈاکٹر وقار شاہ جن کا تعلق پاکستان کے ضلع وہاڑی سے ہے جو پاکستان کا سافٹ امیج اس طریقے سے ڈویلپ کر رہے ہیں۔ اپنے کلینک ہسپتال کے علاوہ ڈاکٹر وقار شاہ امریکی دیہاتوں میں جا کر پاکستان فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ کیمپ میں پاکستان کی خوبصورتی اور کلچر کو اجاگر کرنے کے لئے ڈاکومنٹریز چلائی جاتی ہیں اور ان مریضوں کا فری علاج معالجہ. الٹرا ساؤنڈ ایکسرے بھی کیے جاتے ہیں۔ جن کو ہیلتھ انشورنس میسر نہیں امریکہ کی ریاست شکاگو کے ایک قصبے لو پارک میں ڈاکٹر شاہد امین جو لاہور پاکستانی نژاد ہیں اور لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشے کے حوالے سے وہ جانوروں کے ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے ایک جانوروں کا اسپتال قائم کر رکھا ہے۔ یاد رہے امریکا سمیت متعدد ممالک میں جانوروں کا علاج معالجہ بھی نہایت مہنگا ہے۔ ہفتے میں ایک روز ڈاکٹر شاہد امین اپنے ہسپتال میں فری میڈیکل کیمپ قائم کرتے ہیں اور وہاں ان جانوروں کا علاج معالجہ فری کیا جاتا ہے۔ جن کے مالکان ان کا علاج معالجہ کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ امریکیوں کے لیے ڈاکٹر شاہد امین کا یہ کردار پاکستان کا سافٹ اور پرامن فیس ہے۔ نیویارک بروک لین میں رہنے والے لاہور باغبانپورہ کے ایک خاندان جس کے سربراہ رانا بابر ہیں۔ وہاں ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں وہ ان غیر ملکی اور امریکن مستحق شہریوں کو نہ صرف اپنے گیراج میں مفت سروس مہیا کرتے ہیں بلکہ رانا بابر جاب سے محروم ڈرائیورز کو اپنی ٹرانسپورٹ مفت مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے گزارے لائق پیسے کما سکیں۔ رانا بابر عید کے تہواروں کے علاوہ کرسمس اور ایسٹر پر بروکلین اور کونی آئیر لینڈ میں نہ صرف انواع و اقسام کے کھانوں کے نہ صرف مفت سٹال لگواتے ہیں بلکہ بچوں کے لئے تحائف کا انتظامات بھی کرتے ہیں ۔یہ تمام انتظامات ان کا جواں سال بیٹا علی بابر ابھی سے خوشدلی سے انجام دیتا ہے ۔
تمام اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل یکساں ہیں کہ ہمیں دیار غیر میں نہ صرف عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ شک کی فضا بھی چھائی رہتی ہے۔ چند اوورسیز پاکستانی دیار غیر میں اپنے عملی کردار اور حرکات کی وجہ سے بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور کچھ گنے چنے اورسیز پاکستانی پاکستان سے بیرون ملک جا کر ڈونیشنز اکٹھی کرنے کیلئے اپنے عظیم ملک کا بگڑا ہوا چہرہ دکھاتے ہیں۔ اصل میں پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب ہو چکا ہے۔ مہذب دنیا لڑنے جھگڑنے والی قوموں کو پسند نہیں کرتی اور ہم پچھلے پچاس سال سے حالت جنگ میں ہے۔
افغانستان کی جنگ ہو طالبان کی ہو امریکہ طالبان جنگ کو یا پھر پاکستان میں دہشتگردی ہو دنیا کے سامنے ہماری تصویر منفی طور پر دکھائی جاتی ہے۔ یہ جنگ ہم نے نہیں چھوڑی یہ جنگ عالمی قوتوں کی طرف سے ہم پر مسلط کی گئی ہیں۔ ہم متاثرین میں سے ہیں دنیا کو صرف ہمارے خطے میں پھٹنے والے بم نظر آتے ہیں۔ ہم بے گناہ ہیں‘یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارے جنگی اتحادی جانتے ہیں۔ دنیا کے 245 ممالک میں سے چند ممالک کو ہماری بے گناہی کا پتہ ہوگا۔ ہم نے دنیا کی نظر میں جنگی ملک کی تصویر بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہمارے مقابلے میں بھارت میں علیحدگی کی 28 مسلح تحریک چل رہی ہیں وہاں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ساٹھ سال سے جنگ ہو رہی ہے۔ نریندر مودی جب وزیر اعلی گجرات تھے تو انہوں نے بھارتی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نا صرف دو ہزار سے زیادہ اقلیت میں بسنے والے مسلمانوں کا قتل عام کروایا مسلمان خواتین کی آبروریزی کروائی اور قانونی چارہ جوئی بھی نہیں ہونے دیں۔ نریندر مودی اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بجائے نہ صرف عناد آج بلکہ قتل عام کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بندر مودی ایک دہشت گرد مذہبی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے ٹرینڈ جلاو گراو کے ماہر گردانے جاتے ہیں۔ اس وقت بی جے پی کی حکومت آر ایس ایس کے زیر سایہ ہی چل رہی ہے گجرات میں مودی کے وزیر داخلہ امید کمار پر الزام تھا کہ انہوں نے دو ہزار عیسائی خاندانوں کو تشدد کے ذریعے ہندو مذہب میں اپنا نے پر مجبور کیا۔ اقوام متحدہ میں شکایات بھی ہوئی مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آج بھی بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا قتل عام یا جا رہا ہے بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بن چکا ہے ۔
مگر بھارت کی مضبوط سفارتکاری کی جانب سے امن آرٹ موسیقی فلم کے پیغامات دنیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ دنیا اسے پرامن اور ہمیں بد امن ملک جانتی ہے ہم نے نہ صرف اس حقیقت کو ماننا ہے بلکہ اس تصویر کے رنگ بھی بدلنے ہیں ہمیں اب یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا انتہاپسندی کو پسند نہیں کرتی یورپ میں پچھلے تین سو سال سے کیتھولک اور پروسیٹن کے درمیان اختلافات چلے آرہے ہیں مگر وہاں کسی کو دوسرے شخص سے مذہب پوچھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یورپ میں کسی بھی مذہب کی تبلیغ منع ہے ہمارے ہاں محرم اور ربیع الاول میں ہائی الرٹ ہوتا ہے۔ دنیا جہالت گندگی بیماری کو بھی سخت ناپسند کرتی ہے جس ملک میں بچے اسکول نہ جائیں جس ملک میں ٹی بی خسرہ پولیو ڈینگی بھی عام ہوں اور ویکسین پلانے والے ورکرز کو گولیاں مار دی جائیں تو دنیا اسی نظر سے ہی ہمیں کس نظر سے دیکھے گی۔ آپ دنیا کے 245 ممالک میں سے کہیں بھی چلے جائیں وہاں بھیک مانگنے والے کی کی کوئی عزت نہیں ہوتی جبکہ ہماری پوری اکانومی ملک بھیک امداد اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ ہماری معیشت آج تک قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے جھنڈے اور پاسپورٹ کی عزت کروانا ہم سب کا فرض ہے کے ہم عہد کریں جس طرح ندیم موٹا ڈاکٹر وقار شاہ تبسم اسد ڈاکٹر شاہد آمین اور رانا بابر پاکستانیوں کی عزت بحالی مہم پر کام کر رہے ہیں، اس طرح دنیا میں لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کا سفیر بن کر محنت کرنا ہوگی جس کے بعد پاکستان کا امیج بہتر ہونا شروع ہو جائے گا اور ہماری عزت شروع ہو جائے گی ہم واپس اس جگہ پہنچ جائیں گے جہاں قومیں قوموں کی عزت کرتی ہیں ۔(ختم شد)