گلگت بلتستان کا خواب کب پورا ہوگا؟

پاکستان کا سیاسی اور معاشی نظام چونکہ استحصالی سنگدلانہ اور غیر منصفانہ ہے لہٰذا اس نظام سے پاکستان کے ترقی یافتہ علاقوں کے بااثر افراد ہی فیض یاب ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان بھر کے پسماندہ علاقے نظر انداز ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی وفاق میں بھرپور آواز ہی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں غیر مساوی ترقی کا سفر جاری ہے۔ گلگت اور بلتستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ یکم نومبر گلگت اور بلتستان کے شہریوں کا یوم آزادی ہے جسے وہ جوش و جذبے اور نئی توقعات کے ساتھ مناتے ہیں۔یکم نومبر 1947ء کو گلگت اور بلتستان کے غیور شہری مقامی لیڈروں کی قیادت میں ڈوگرہ حکمران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔گورنر گنسارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد گلگت اور بلتستان کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کے باسیوں کو یہ امید تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت میں موجود اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ملکر پورے علاقے کو آزاد کرا لیں گے۔جب کشمیر میں ڈوگرہ راج ختم ہوگیا اور ہندوستان کی افواج نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر لیا تو گلگت اور بلتستان کے شہریوں نے غیر مشروط طور پر پاکستان سے الحاق کر لیا۔ان شہریوں کا خواب یہ تھا کہ ان کے خلاف ظلم کی رات ختم ہو چکی، جبر کا دور اپنے انجام کو پہنچ چکا اور اب وہ پاکستان سے الحاق کے بعد آزاد شہریوں کی حیثیت سے اپنی زندگی باوقار طور پر گزار سکیں گے۔پاکستان کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے الحاق کو حالات کا منطقی نتیجہ سمجھا اور گلگت بلتستان کے شہریوں کو وہ اہمیت نہ دی جو ان کا بنیادی حق تھا۔گلگت بلتستان کو باضابطہ طور پر مکمل ضلع کا درجہ بھی نہ دیا گیا اور قبائلی علاقوں کی طرح پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے اس علاقے پر حکمرانی کی گئی۔گلگت بلتستان کے سٹیٹس کو اس وقت مزید کم تر کردیا گیا جب محکمہ ریونیو کے ایک تحصیلدار سردار محمد عالم خان کو 73000 کلو میٹر کے علاقے میں رہائش پذیر دس لاکھ کی آبادی پر حکمرانی کے لیے پولٹیکل ایجنٹ نامزد کیا گیا۔اس جونیئر آفیسر کا چونکہ کوئی تجربہ اور ویژن نہیں تھا لہٰذا اس نے ایف سی آر کے کالے قوانین کو اس علاقے پر حکمرانی کے لیے استعمال کیا۔شہریوں کی سیاسی سرگرمیوں اور اظہار کی آزادی کو ختم کردیا گیا۔ڈوگرہ راج کی روایت پر عمل کرتے ہوئے زرعی ٹیکس عائد کیا گیا اور لوگوں کو بے گار یعنی جبری مشقت پر مجبور کیا گیا۔دو سال کی جبری حکومت کے بعد پاکستان کی حکومت نے کراچی ایگریمنٹ 1949ء کے مطابق کشمیری لیڈروں سے معاہدہ کر کے پورے کشمیر کا انتظامی کنٹرول حاصل کرلیا۔اس معاہدے کے بعد گلگت بلتستان کے علاقے کو بیوروکریسی کے سپرد کر دیا گیا ۔ گلگت اور بلتستان میں خدمات انجام دینے والے سول سرونٹس کو وزارت کشمیر کے ماتحت کر دیا گیا۔یہ غیر احتسابی حکمرانی 1973ء تک جاری رہی جس کے بعد پی پی پی کی حکومت نے ایف سی آر قوانین کو ختم کر دیا۔
1994ء سے 2018ء تک گلگت بلتستان کو صدارتی فرامین کے تحت چلایا گیا۔گلگت بلتستان کے عوام کی اس خواہش کو بری طرح نظر انداز کیا گیا کہ ان کے علاقے کو پاکستان کا حصہ بنا کر ان کو پاکستان کے شہریوں جیسے مساوی حقوق دیے جائیں۔آخرکار گلگت بلتستان کے شہریوں نے تنگ آکر سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی اور مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان کا مکمل اور مساوی شہری تسلیم کرکے انہیں برابر کے حقوق دیئے جائیں۔
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ کہ وہاں کے عوام کا مطالبہ درست ہے لہٰذا ان کو پاکستان کے برابر کے شہری تصور کیا جائے۔وزیراعظم نواز شریف پر جب دباؤ پڑا تو انہوں نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں گلگت بلتستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔اس کمیٹی نے سنجیدہ غور و خوص کے بعد سفارش کی کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے۔سپریم کورٹ نے بھی کمیٹی کی سفارشات سے اتفاق کیا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ کمیٹی اور سپریم کورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کی بجائے وفاق نے گلگت بلتستان کے مسئلہ کو التوا میں رکھا۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کے لئے بلند بانگ دعوے کرتی رہیں مگر وہ سب عمل درآمد سے قاصر رہیں۔گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والے نیک نام سابق آئی جی پولیس سندھ محترم افضل علی شگری نے اپنے ایک آرٹیکل میں حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے مسئلہ کو اگر حل نہ کیا گیا تو وہاں کے شہریوں میں مایوسی اور احساس محرومی کے شدید جذبات پیدا ہوں گے جس کے نتائج پاکستان کے لیے سودمند نہیں ہو سکتے۔انہوں نے تحریر کیا ہے کہ گریٹ گیم کے تناظر میں گلگت بلتستان سٹریٹیجک نوعیت کا علاقہ ہے۔گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہے جس سے پاکستان کا معاشی مستقبل وابستہ ہے لہٰذا اس علاقے میں مایوسی اور بے چینی پاکستان کے قومی مفاد اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔اس علاقے میں قیمتی معدنیات ہیں اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ گزشتہ صوبائی انتخابات میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو صوبے کا درجہ دیا جائے گا لہٰذا اس سلسلے میں اگر کوئی فیصلہ کیا جائے اور قوانین تشکیل دیئے جائیں تو کوئی جماعت اس کی مخالفت نہیں کر سکتی۔غیر معمولی تاخیر سے شہریوں کے اندر جو بے چینی اور اضطراب پیدا ہو گا اس سے پاکستان دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ موجودہ حکومت ترجیح بنیادوں پر اقدامات اٹھائے اور عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ پسماندگی سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور گلگت بلتستان کے عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں۔پاکستان کی انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران بلند بانگ دعوے تو کر لیتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں کرتیں جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے جس سے پاکستان کے دشمن ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
٭…٭…٭