پاکستان کا پہلا عدالتی انقلاب لیکن تحریک ردِ انقلاب

’’بائبل میں ’’ ججوں کی حکومت !‘‘
معززقارئین ! مَیں نے کئی بار اپنے کالموں میں بائبل کے عہد نامہ عتیق (Old Testament) کے باب کا تذکرہ کِیا ہے ۔ اُس کے مطابق ’’Book of Judges‘‘ (قاضیوں کی کتاب) لِکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ’’Joshua‘‘ (حضرت یوشعؑ) سے لے کر ’’Samuel‘‘ (حضرت سموئل ؑ) تک تقریباً چار سو سال تک بنی اسرائیل پر ججوں ( قبائلی بزرگوں ) کی حکومت رہی۔ اُس دَور میں ججوں کے سِوا بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا۔ 2234 قبل از مسیح بنی اسرائیل نے خواہش کی کہ ’’ قُرب و جوار کی دیگر اقوام کی طرح وہ بھی کسی بادشاہ کے تابع فرمان بن کر رہیں۔ خُدا نے اُن کی یہ آرزو پوری کردِی۔ (جج اور نبی حضرت سموئل ؑنے بِن یامین ؑکی اولاد میں سے ’’Saul‘‘ (حضرت سائول ؑ) کو بادشاہ مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد حضرت دائود ؑ۔ حضرت سلیمانؑ اور دوسرے بادشاہ تھے!‘‘۔ پھر کیا ہُوا ؟ آہستہ آہستہ مختلف ملکوں میں مختلف نظام قائم ہُوئے لیکن ججوں کی حکومت کسی نہ کسی انداز میں قائم رہی۔
’’ انقلابِ فرانس ! ‘‘
23 اگست 1754 ء سے 21 جنوری 1793ء تک فرانس میں لوئی شانز دہم(Louis XVI) کی بادشاہت تھی ۔ پھر اِنقلابِ فرانس کے دَوران فرانس پر (ستمبر1792ء تا اکتوبر 1795ئ)حکومت کرنے والی۔ "Convention"۔ (انقلابی اسمبلی) نے فرانس کے بادشاہ لوئی شانز دہم(Louis XVI) پر بیرونی ملکوں کے ساتھ سازش اور فرانس سے غدّاری کرنے کا مقدمہ چلا کر 21جنوری 1797ء کو۔ "Guillotine"۔(گلا کاٹ مشین) سے اْس کا سر قلم کر ادیا گیا تھا۔ جب لوئی کو گلّو ٹین کے پاس لایا گیا تو اْس نے وہاں کھڑے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا۔ ’’میرے عزیز لوگو! مَیں بے گناہی کی سزا پا رہا ہوں‘‘۔ 4اپریل 1979ء کوجب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو جنوبی ایشیاء کے لئے بی بی سی کے نمائندہ خصوصی مارک ٹیلی کی رپورٹ کے مطابق بھٹو صاحب کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’یا اللہ!۔ مَیں بے قصور ہوں!‘‘۔
’’ پاکستان کے فوجی حکمران ! ‘‘
معزز قارئین ! مصّورِ پاکستان ، علاّمہ محمد اقبالؒ اور بانی ٔ قائداعظم محمد علی جناحؒ قانون دان تھے ۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا تو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد ، قائد ِ ملّت ، لیاقت علی خان ؒ نے وزارت عظمیٰ کا ۔ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظمؒ خالقِ حقیقی سے جا ملے اور 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے اُنہیں شہید کردِیا گیا ۔ اُس کے بعد کئی صدور اور وزرائے اعظم کا دَور رہا۔ 23 مارچ 1956ء کو سکندر مرزا صدر ِ مملکت منتخب ہُوئے لیکن اُنہوں نے 7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کردِیا۔ مارشلائی کابینہ میں لاڑ کانہ کے قانون دان اور جاگیر دار ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ اُن کا صدر سکندر مرزا کے نام یہ خط "On Record" ہے کہ ’’ جنابِ صدر آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں !‘‘۔
’’فیلڈ مارشل محمد ایوب خان !‘‘
27 اکتوبر 1958ء کو آرمی چیف محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف اور جلا وطن کر کے خود اقتدار سنبھال لِیا۔ قانون دان ذوالفقار علی بھٹو اُن کی کابینہ میں بھی شامل تھے اور اُنہوں نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو اپنا "Daddy" بنا لِیا۔ معزز قارئین ! مَیں زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا صرف فوجی حکمرانوں کا تذکرہ کروں گا ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے بعد 25 مارچ 1969ء سے 20 دسمبر 1971ء تک جنرل محمد یحییٰ خان رہے ، اُن کے دَور میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے اور جب پاکستان دولخت ہُوا تو وہ 20 دسمبر 1971ء کو اُنہوں نے بچے کھچے پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘ کا نام دے کر سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھال لِیا۔
’’ جنرل ضیاء اُلحق / جنرل پرویز مشرف ! ‘‘
مَیں زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا ، 16 ستمبر 1978ء کو جنرل ضیاء اُلحق نے اقتدار سنبھالا ، 4 اپریل 1979ء کوذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی ۔ مَیں سِویلین صدور اور وزرائے اعظم کی بات نہیں کروں گا ۔ 20 جون 2001ء سے 18 اگست 2008ء تک جنرل پرویز مشرف صدرِ پاکستان رہے ۔ یاد رہے کہ ’’ ہر فوجی حکمران کے دَور میں مختلف سیاستدان نے وزرائے اعظم ،وفاقی وزرائ، صوبائی گورنرز اور صوبائی وزرائے اعلیٰ و وزراء کے منصب سنبھالے رکھے تھے ۔ ’’ شہید ذوالفقار علی بھٹو ‘‘ کے بعد دو بار اُن کی صاحبزادی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور ایک بار ’’ دامادِ بھٹو ‘‘ آصف علی زرداری صدرِ پاکستان رہے ۔
’’ میاں نوازشریف ! ‘‘
معزز قارئین ! مَیں زیادہ صدور اور وزرائے اعظم کی بات نہیں کروں گا صرف اتنا عرض کروں گا کہ ’’ میاں نواز شریف صدر جنرل ضیاء اُلحق کی پیداوار تھے اور جنرل صاحب کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ اللہ کرے کہ میری بھی عمر نواز شریف کو لگ جائے ! ‘‘ ۔ میا ںنواز شریف جب دوسری بار وزارتِ عظمیٰ برطرف کئے گئے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مَیں شہید جنرل ضیاء اُلحق کا مشن ضرور پورا کروںگا ؟ ‘‘ وہ مشن کیا تھا ، اُنہوں نے نہیں بتایا اور نہ ہی اُن کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز یا کسی اور نے ۔ جہاں تک تحریک پاکستان کی مخالف کانگریسی مولویوں کی باقیات کے سر خیل اور P.D.M ’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ کے صدر مولانا فضل اُلرحمن اور دوسری چھوٹی موٹی پارٹیوں کا تعلق ہے ۔ اُن کے بارے پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام اچھی طرح جانتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا "P.D.M" میں شامل یا اُس سے باہر سیاسی جماعتوں کی ، 28 جولائی 2017ء کو آنیوالے ’’عدالتی انقلاب ‘‘کی ’’ تحریک ردِ انقلاب‘‘ کامیاب ہوگی ؟ اِس کا جواب تو ریاستِ پاکستان کے پانچوں ستون (ہماری عسکری قیادت ) ہی دے سکے گی ۔
’’ الطاف حسین کی بد گوئی ! ‘‘
الطاف حسین نے ایک بار اپنی زبان سے یہ کہا تھا کہ ’’ پاکستان میں انقلاب تو کوئی جنرنیل ہی لائے گا لیکن اُس کے بعد کسی بھی جرنیل نے انقلاب لانے پر توجہ نہیں دِی ؟ ‘‘ معزز قارئین ! دُعا کریں کہ ’’ پاکستان میں کبھی سچی جمہوریت آ ہی جائے!‘‘۔ (ختم شد)