سندھ کی خراب گورننس اور وزیر اعظم کا انتباہ
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ’’ اگر سندھ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے تو وفاقی حکومت مداخلت کرسکتی ہے۔ ‘‘ یہ بات انہوں نے اپنی زیر صدارت گندم اور کھاد کے سٹاک کے حوالے سے ہونے والے جائزہ اجلاس کے دوران کہی۔حکومت کو جن مسائل نے گھیر رکھاہے ان میں مہنگائی سر فہرست ہے۔مہنگائی کا سبب صرف ٹیکسوں کی شرح میں ہی نہیں بلکہ اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی بھی ہے۔ذخیرہ اندوز کسی ڈر یا خوف کے بغیر اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاء زیادہ مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔جس سے ایک طرف عوام الناس کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف حکومت کی رٹ پر بھی حرف آتاہے۔بدقسمتی سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کبھی بھی کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھ چکے ہیں چنانچہ وہ جب چاہتے ہیں اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ناجائز منافع کماتے اور اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں ۔سندھ میں شوگر فیکٹریاں اور کھاد کے کارخانے قائم ہیں۔ ۔اس مرتبہ شوگر ملوں نے کرشنگ سیزن میں بھی فیکٹریاں نہیں چلائیں اورتیار سٹاک کی فراہمی بھی روک دی ۔جس سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہو گیا ۔کھاد کے کارخانے بھی کھاد کی قلت کا سبب بنے اور کسانوں کو مہنگے داموں کھاد خریدنا پڑی ۔وزیر اعظم نے اسی تناظر میں حکومت سند ھ کو انتباہ کیا ہے کہ ا گر اس نے ذخیرہ اندوزں کے خلاف مؤثر اور فوری کارروائی نہ کی تو وفاقی حکومت مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائے گی ۔سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان اس قسم کی بیان بازی عام طورپر ہوتی رہتی ہے۔اس میں شک نہیںکہ سندھ حکومت ابھی تک عوامی مسائل کے حل میں غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور عوام ان مسائل کے باعث شدید ذہنی کوفت اور پریشانی سے دوچار ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو بھی کہنا پڑا کہ ’’ لوگوں کو تھر میں جانوروں کی طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، ہسپتالوں میں گدھے بندھے ہوئے ہیں، لائٹ نہیں ہے، دوا اور ایکسرے مشین کی سہولیات بھی خواب بن چکیں ۔سندھ حکومت کی خراب گورننس پر چیف جسٹس کے ریمارکس اسکے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔سندھ حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے ۔محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بات نہیں بنے گی ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔