ضلع راجن پور میں جرائم کی صورتحال
بارڈر ملٹری پولیس کی بنیادانگریز حکمرانوں نے رکھی جو پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان کے دواضلاع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے تین سو کلومیٹر پر محیط علاقے جو صوبہ بلوچستان‘ خیبر پختون خواہ اور سندھ سے پنجاب کے میدانی علاقوں سے ملحق ہیں۔ ان اضلاع کا باون فیصد علاقہ قبائلی علاقہ کہلاتا ہے جو ہر دو اضلاع کی نصف آبادی سے زائد ہے۔ بارڈر ملٹری پولیس اس علاقہ کی فرنٹ لائن کادرجہ رکھتی ہے جو نہ صرف چھ معروف قبائل کے درمیان امن و امان کی ذمہ دار ہے بلکہ ان علاقوں میں ڈی جی سیمنٹ‘ او جی ڈی سی دیوان گروپ اور اٹامک انرجی کمشن کی تنصیبات کا تحفظ بھی اس فورس کی اولین ترجیح ہے۔ معدنی وسائل سے مالا مال یہ علاقے نصیب والوں کے حصہ میں آتے ہیں۔ بلوچستان سے شورشیں جن کے تانے بانے دشمن ممالک اور کچھ اپنوں سے ملتے ہیں وہ انہیں ذخائر کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں۔ انگریزوں کے دور میں جنم لینے والی بارڈر ملٹری پولیس ایک جاندار اور بنانے والوں کیلئے کار آمد فورس تھی مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے اور ان پیچیدہ علاقوں میں امن کے قیام میں اس کا اچھا کردار رہا مگر قیام پاکستان کے بعد وہ حالات ہی ختم ہوگئے جس کیلئے اس کا قیام ناگریز تھا۔حکومتوں نے توجہ ہٹا لی فورس کی تعداد کم ہوتے ہوتے آدھی رہ گئی کئی عشروں سے نئی بھرتی پر پابندی نیاس کی افادیت ختم کر کے رکھ دی اسی فورس کے لوگ ریٹائر ہو کر یا میڈیکل بنیادوں پر ریٹائر ہو کر حکومتی پالیسی اور مروجہ قوانین کے مطابق اپنے بیٹیکو ملازمت دلا دیتے ہیں اور اسی طرح علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھتے ہیں اِس کے تھانے بی ایم پی میں کرپشن کا اہم گڑھ ہیں۔ اِن تھانہ جات میں پوسٹنگ کے لیے ایس ایچ او صاحبان لاکھوں روپے کی رشوت برائے پوسٹنگ پہلے ادا کرتے ہیں اور پھر افسران کو لاکھوں روپے ماہانہ منتھلی دیتے ہیں۔یہی کرپشن بی ایم پی فورس کی بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اور اِن تھانہ جات میں تعینات اہلکاروں کی کروڑوں روپے کی بے نامی جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔چند سال قبل پالیسی سازوں کیلئے بارڈر ملٹری پولیس بوجھ سمجھی جانے لگی تو اسے پنجاب پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کر لئے گئے تاہم اس سے مستعفید ہونے والوں نے احتجاج شروع کر دیا بلوچ قبائل کے نمائندگان کا ڈیرہ غازیخان کا ایک اجتماع ہوا اور ایک گھنٹہ تک ملتان راجن پور روڈ کو بند کئے رکھا جن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بی ایم پی کو پنجاب پولیس میں ضم نہ کیا جائے ورنہ اس طرح بلوچی تشخص مجروح ہو گا۔
ڈیرہ غازیخان اور ضلع راجن پور کے معززین‘ تمندار‘ سردار کیا نہیں جانتے کہ جن راستوں سے دیگر ملحقہ صوبوں سے سمگلنگ ہوتی ہے اور قیمتی کاریں براستہ ڈیرہ غازیخان ‘ راجن پور‘ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور پہنچتی ہیں راستے میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو روک لیا جائے تو اعلیٰ عہدیداروں کے فون بہت نچلی سطح پر آتے ہیں اور پھر سب کو آزاد کر دیا جاتا ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں میدانی علاقوں کے ’’معززین‘‘ ڈیرہ غازیخان کے ذریعے انہیں راستوں سے چوری کی کاریں اور موٹرسائیکل اندر پہاڑ بھیج دی جاتی ہیں اور ’’بھونگا‘‘ وصول کر کے کار اور موٹرسائیکل مالکان کو واپس کردئے جاتے ہیں۔ اب براستہ سخی سرور تو یہ کاروبار رینجرز کی موجودگی کی وجہ سے تقریباً بند ہو چکا ہے لیکن تحصیل تونسہ میں اور ڈیرہ غازیخان کے علاقہ زندہ پیر اور وڈور‘ بیلہ کے راستے شاہ علی میر تک پہنچائی جاتی ہیں اور پھر جس کو واپس کرنی ہو تو واپس ہو جاتی ہیں کیونکہ اس میں بلوچ سرداروں کے بااثر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے‘ علاقے میں ریفرنڈم کرایا جائے کہ ایسی فورس کو پنجاب پولیس میں مدغم کر دیا جائے یا نہیں۔ عوام کی اکثریت پر فیصلہ دیا جائے یا پھر کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ کل ایف آئی آر اور فیصلہ جات دیکھ لئے جائیں ویسے تو یہا ں امن ہی امن ہے اگر امن ہے تو پھر انعامات سے نوازا جائے اور اگر ’’مریدانکانی اور چھوٹو‘‘اور اس جیسے لوگوں کو یہ فورس پال رہی ہے تو ایسی فورس کی چنداں کوئی ضرورت نہیں راجن پور کچے کے علاقیان کی وجہ سے درد سر بنے ہوئے ہیں جب بھی کچے کے علاقوں میں آپریشن ہوتا ہے تو قبل از وقت ڈاکوؤں کو پولیس میں موجود ان کے خیر خواہ آگاہی دے دیتے ہیں اور وہ بارڈر ملٹری پولیس کے علاقوں میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور اس کی میزبانی سے اس وقت تک لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جب تک حالات نارمل نہ ہوجائیں اوروہ واپس اپنی کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راجن پور کے کچے کے علاقوں میں درجنوں آپریشنز کے باوجودِ علاقے کو ڈاکوؤں سے پاک نہیں کیا جا سکا نہیں پنجاب پولیس کے بیسوں اہلکار شہید کیے جا چکے ہیں۔ بارڈر ملٹری پولیس پر الزام عائد کیا جاتا ہیکہ تیل کی مد میں ریکارڈ کرپشن کی جاتی ہے حالانکہ ان کے پاس بہت ہی کم گاڑیاں رہ گئی ہیں اس علاقے میں مخالفین کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے بارڈر ملٹری پولیس انتہائی سستا ذریعہ ہے چند ہزار روپے کی خاطر تعزیراتِ پاکستان کے ان دفعات کا استعمال ہو جاتا ہے جہاں پنجاب پولیس سوچ بھی نہیں سکتی چند روز قبل راجن پور کے ایک صحافی کے خلاف موٹر سائیکل اور کیش ڈکیٹی کی ایف آئی آر باآسانی درج کر لی گئی راجن پور کے صحافیوں کی طرف سے تحفظ صحافیان کانفرنس منعقد کی گئی تین اضلاح کے صحافیوں نے کانفرنس میں شرکت کی ان کا احتجاج حسب معمول صدا بصحرا ثابت ہوا۔ کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس نے اس بارے فیصلہ موبائل ڈیٹا سے مشروط کر دیا تھا مگر ہفتوں گزرنے کے بعد بھی پیش رفت نہیں ہو سکی اور مقدمہ اب بھی قائم ہے اب جبکہ فاٹا کے علاقے خیبر پختونخوا ہ میں ضم کیے جا چکے ہیں تو ڈیرہ غازی خان اور راجن پورکے قبائلی علاقے جات کو کیوں پسماندہ رکھا جا رہا ہے ان قبائل میں فاٹا سے بھی بد تر حالات ہیں دہشت گردوں کے مسکن بنے ہوئے ہیں چند یوم قبل سی ٹی ڈی نے ان علاقوں سے روجہان پہنچنے والے 5 دہشتگردوں کوگرفتار کیااس سے ایک ہفتہ بعد بم،خود کش جیکٹس اور بارودی مواد پکڑا گیا قبل ازیں ریلوے ٹریک کو بارودی مواد سے اڑانے کی کئی کوششیں ناکام بنائی جا چکی ہیں ماضی میں بھی دہشت گردوں نے ان علاقوں سے گزر کر ڈیرہ غازیخان میں بم دھماکے کیے اور بارڈر ملٹری پولیس ہر بار ناکام رہی دونوں اضلاع میں کریمنل سرگرمیوں کے تانے بانے قبائلی علاقوں سے ہی جڑے ہوئے ہیں دونوں اضلاع میں درجنوں موٹر سائیکل یا گاڑیاں چھیننے یا چوری ہو کران علاقوں میں پہنچا دیے جاتے ہیں اس بارے تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائل صحت،تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق سے کیوں محروم ہیں۔