شور کی شوریدگی حقیقی خطرہِ صحت

اللہ تعالیٰ نے انسان میں سننے کی صلاحیت ایک خاص حد تک متعین کی ہے مقررہ حد سے متجاوز آواز شور کہلاتی ہے ۔سائنس کی ترقی سے گاڑیوں، صنعتوں،مشینریوں وغیرہ کے بے پناہ اظافہ سے شور کی آلودگی عصرِ حاضر کا ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے صحت جیسی دولت کو حقیقی خطرات لاحق ہیں۔۔شور کی آلوودگی کا ایک اہم عنصر گاڑیوں کی بہتات اور ان میں پریشر ہارن کا تیزی سے بڑھتا استعمال ہے۔شہر ہو یا دیہات ،پبلک آبادیاں ہوں یا ہسپتال،تعلیمی ادارے ہوں یادفاتر ڈرائیور حضرات بلا خوف خطر پریشر ہارن کا بھر پور استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔بچوں، بیماروں ،بوڑھوں پر اس ہارن کی شدت اور ان چاہی آواز نہ صرف گراں گذرتی ، بلکہ دیگر مکینوں میں نیند میں خلل،تھکاوٹ ،بے چینی، چڑ چڑاپن ، ڈپریشن،نفسیاتی مسائل و ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ قوت سماعت اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے اذیت ناک ، کربناک اور تکلیف دہ احساس کاموجب ہے ۔ماہرین کے نزدیک پریشر ہارن کاشور و غل ہائی ڈیسیبل میں آتا ہے ۔پریشر ہارن کے استعمال سے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہے ہے ۔بڑی گاڑی جب کراسنگ کے دوران اگلی گاڑی کے قریب جا کر تیز ہارن بجاتی ہے تو اگلی گاڑی کا ڈرائیور عقب سے کسی بھی غیر ممکنہ تیز آواز سے طبعی طور پر ڈر کر اور اوسان خطا ہونے پر اپنی گاڑی پر گرفت گرپ کھو دیتا ہے ۔ امریکی قومی ادارہ صحت کے مطابق انسانی کان کی شور و آواز کی معتدل برداشت 55تا65ڈیسیبل ہے۔ڈیسیبل جو آواز کی پیمائش کا یونٹ ہے اگر اس کی مقدار اور شدت اس سے بڑھ جائے تو یہ انسانی صحت پر ضمنی اثرات مرتب کرتے ہیں۔سینٹر انوائرمینٹل سائنسز آف پنجاب یونیورسٹی لاہور کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے نویّ فیصد علاقوں میں شور کا تناسب ستّر ڈیسی بل سے بلند ہے جبکہ باقی شہروں کی صورتِ حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ شور نہ صرف انسان کی بلکہ جانوروں کی صحت اور سننے کی صلاحیت و فعالیت کو بھی شدید ڈسٹرب کرتے ہیں۔جانوروں کا اپنے ہم جنسوں سے تبادلہ خیال و معاملہ فہمی چونکہ قدرت نے تیزقوت سماعت پر ہی رکھی ہے شور ان کی جائے روئیدگی اور طبعی مسکن میں خلل ڈالتا ہے۔پرندوں کے خون میں ہارمون بڑھنے سے ان کی ذہنی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔ شور سے بچوں میں سیکھنے،یاد کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس مصیبت نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن اور سکون برباد کر رکھا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق گاڑیوں کے باعث بڑھتی صوتی الودگی کے باعث ہر تیسرا شخص،دنیا میں بارہ کروڑ افراد مختلف و متنوع سماعتی نقائص کا شکار ہے۔ٹرانسپورٹ اڈوں کے قرب و جوار کی آبادیاں،کاروباری حضرات اور مسافر کئی کئی میل تک چوبیس گھنٹے ،کھٹارہ گاڑیوں،رکشوں کی پھٹ پھٹ،جرنیٹروں ،اونچے ٹیپ ریکارڈروں جیسی ناگوار شور کی زد میں رہنے سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔مکین نفسیاتی اور اعصابی مریض بن چکے، سوئے بچے جاگ جاتے ہیں۔ شور والا ماحول قبل از وقت بڑھاپے کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ بڑی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل موٹر سائیکلوں پر پریشر ہارن بجائے،پھٹے سلنسر کے ساتھ گلیوں محلوں میں نمائشی ڈرائیونگ کرتے اپنی اس منفی حرکت و گردش سے مکینوں کو اذیت میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں گویا سکوت و سکون ہر جگہ ناپید ہو چکا۔ہارن کا مقصد دوسروں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا اور مطلع کرنا ہوتا ہے لیکن یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کے مدِ مقابل گاڑی ،مسافروں اور گرد نواح کے نفوس کوشورکے اذیت و خلل بھرے ماحول کے سپرد کر دیا جائے۔ ذرا سی ٹریفک کی بندش یا رکاوٹ کیا ہوتی ہے! ہوڑا ہوڑی سارے ڈرائیور ہارن پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ہمارے ہاں ڈرائیور حضرات کی ایک بڑی تعداد ان پڑھ طبقہ سے تعلق رکھتی ہے اور وہ نتائج کی سنگینی سے بے نیاز اپنی خاصیت کو کھلے دل سے استعمال کرتے ہیں۔پریشر ہارن کے پیدا کردہ شور اور اعصابی جھٹکوں کے خاتمہ کے لئے اس کے خلاف بلا توقف وتاخیر کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔انتظامیہ پریشر ہارن والی گاڑیوں کو بھاری جرمانے عائد کرے۔ اسے ٹریفک قوانین توڑنے کے زمرہ میں لایا جائے۔اس کے بنانے والی فیکڑیوں کو سربمہر اور سخت بیخ کنی کی جائے۔ شہریوں کو پر سکون ماحول کی فراہمی کے لئے درختوں کی پیداوار بڑھائی جائے تاکہ دیگر فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ شور کی آلودگی کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے۔ معاشرتی بیداری اورڈرائیور حضرات میں اس کے بارے ہوش مندی اورشعور اجاگر کرنے کے لئے سیمینار ،ورکشاپس،اور ٹریفک قوانین کے شعور و احترام کا اہتمام کیا جائے ۔سب سے بڑھ کر ہمیں ایک مہذب ،ذمہ داراور تعلیم یافتہ قوم کے عملی ثبوت کا مظاہرہ خود پریشر ہارن کا استعمال ترک کر کے دینا چاہیے۔شور اور شعور میں بنیادی فرق ہے اور وہ علم ہے۔