گلگت بلتستان کے عوام نے ووٹ کو عزت دے دی!!

گلگت بلتستان کا انتخابی عمل تکمیل کو پہنچ چکا۔تیسری قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کے نتائج سامنے آچکے۔ دھاندلی کے الزامات ہماری روایت ہے اس روایت کی پیروی اپوزیشن بطریق احسن کررہی ہے۔اختلافات اگر جمہوریت کا حسن ٹھہرے ہیں تو الزامات کو الیکشن کا حسن قرار دینے میں کیا مضائقہ ہے۔اپوزیشن جماعتیں نہ صرف الزامات عائد کررہی ہیں بلکہ بھرپور احتجاج کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے صرف سیاسی مفادات کی غرض سے الزام تراشی کو دانشمندی نہیں کہا جائے گا۔ گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن سے قبل سامنے آنے والے سروے کے نتائج اور تجزیوں میں واضح طورپر یہ بتایا گیاکہ اپوزیشن کو بہت کم نشستیں مل پائیں گی جبکہ تحریک انصاف ہی برتری حاصل کر نے کی پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے انتخابات سے ایک روز قبل تک سامنے آنے والے تجزیوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو جو نشستیں حاصل ہوئی ہیں ان سے زیادہ کی توقع ہی نہیں کی جارہی تھی۔ ماضی کی یہ روایت رہی ہے کہ وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہو گلگت بلتستان کا انتخابی معرکہ وہی جماعت سر کرتی ہے۔ 2009میں پیپلز پارٹی اور 2015مسلم لیگ (ن) وفاق میں حکومتیں ہونے کے باعث گلگت بلتستان کے انتخابات میں کامیاب رہیں اور اکثریتی نشستیں ان کے حصہ میں آئیں۔ اس مرتبہ گلگت بلتستان کے انتخابی عمل میں یہ ضرور ہوا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلائی۔ جگہ جگہ جلسے کئے اور اپنا موقف عوام تک پہنچایا جس کی وجہ سے قومی سطح پر میڈیا میں گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن زیادہ اہمیت اختیار کر گئے اور گلگت بلتستان کے مسائل ملک بھر کے عوام تک پہنچے۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر خود کو ایک ثابت کر نے والی اپوزیشن جماعتوں کیلئے عوام کے سامنے ایک دوسرے کو غلط قرار دینا کافی مشکل رہا۔انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زر داری کی جانب سے یہ تاثر بھی دیا گیا کہ شاید انہیں مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے اور ان کی جماعت ہی گلگت بلتستان کی حکومت بنائیگی لیکن انتخابی نتائج میں وفاق میں حکومت رکھنے و الی پاکستان تحریک انصاف ہی گلگت بلتستان کی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور حسبِ روایت کامیابی کا ہما انہی کے سر بیٹھا جو اسلام آباد کے ایوان ِ اقتدار کے مکین ہیں۔ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار گلگت بلتستان کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کو توقعات سے کم قرار دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی اس کامیابی کو بھی تسلیم کر نے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتیں۔تحریک انصاف اکیلے حکومت میں بنانے کی پوزیشن میں نہیں اسے آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کر نے کی ضرورت ہوگی۔انتخابی مہم کے دور ان تمام سیاسی جماعتیں کامیابی کی صورت میں عوام سے ان کے مطالبات پورے کر نے کے وعدے کرتی ہیں جن میں حز ب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں شامل ہوتی ہیں لیکن الزامات کا نزلہ حکومتی جماعت پر ہی گرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے علاقے کو صوبے کا درجہ دینا چند اہم مطالبات میں شامل رہا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اس مطالبے کو پورا کر نے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کئی حوالوں سے محرومیوں کا شکار رہے ہیں ان کے مطالبات کی تکمیل کی جانب اٹھنے والے ہر قدم پر تمام جماعتوں کو مسرت کا اظہار کرنا چاہیئے۔ حالیہ الیکشن میں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے پولنگ کے عمل میں حصہ لیا وہاں خواتین کی شرکت بھی ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر دکھائی دی۔ حالیہ انتخابات کا یہ خوشگوار پہلو طمانیت کا باعث ہے کہ اس الیکشن میں خواتین امیدوار بھی اپنی مہم چلاتی دکھائی دیں جنہوں نے خواتین کو ووٹ ڈالنے پر قائل کیا ورنہ عام طور پر گلگت بلتستان کے اکثر حلقوں میں خواتین پولنگ کے عمل سے دو ررہتی ہیں۔ یہ امر بھی نہایت خوش آئند ہے کہ علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جس کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم موثر اور بہتر طورپر چلانے کا موقع میسر آیا۔انتخابی مہم کے دور ان کسی سیاسی جماعت کا بڑا جلسہ اس بات کی قطعی ضمانت نہیں ہوسکتا کہ پولنگ کے روز امیدوار کو اتنے ہی ووٹ ملیں گے جتنے افراد جلسے میں شریک ہیں۔ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ قومی سطح کے انتخابات میں بڑے بڑے انتخابی جلسے کر نے والے امیدوارپولنگ کے روز بہت کم ووٹ حاصل کر نے میں کامیاب ہو سکے۔کہتے ہیں سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی آج کے حلیف کل کے حریف بن سکتے ہیں اور آج ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے دکھائی دینے والے کل ایک ہی میز کے گرد براجمان ہوسکتے ہیں۔اپوزیشن کی الزام تراشی سے ہٹ کر اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ پہلو بھی مدِ نظر رہنا چاہیئے کہ ماضی میں الیکشن جیتنے والے کئی امیدوارحالیہ الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے جس کی وجہ سے اپوزیشن کو ان امیدواروں کی نشستوں سے محروم ہونا پڑا۔ اپوزیشن کے الزامات پر اگرغور کیا جائے تو ان میں سے زیادہ تر پری پول رگنگ کے حوالے سے تھے۔جن میں حکومتی جماعت پر ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات اور عوام سے کئے جانے والے وعدوں پر اعتراضات اٹھائے گئے۔تاہم یہ واضح ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج پر نہ تو کوئی حیرتوں کے سمندر میں ڈوبا اور نہ ہی کسی کو آسمان سر پر گرتا محسوس ہوا۔ انتخابی نتائج توقعات کے عین مطابق رہے دھاندلی کے الزامات کے بعد گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کیمرے کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی پیشکش نہایت اہم ہے جس سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کا واضح تاثر ملتا ہے اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنما اپنے خلاف بد عنوانی اور دیگر مقدمات کے حوالے سے یہ موقف اختیار کر تے رہے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کیمروں کے سامنے کی جائے تاکہ عوام کو حقیقت معلوم ہو سکے۔ گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کیمرے کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی پیشکش بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ حقائق سامنے لانے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن کو اس پیشکش کے بعد اپنے الزامات واپس لے کر الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرنا چاہیئے۔ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال اور بالخصوص اگست 2019کے اقدامات کے بعد بین الاقوامی سطح پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نہایت اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں ایسے میں گلگت بلتستان کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا کر انہیں متنازعہ بنانے سے دنیا کے سامنے اچھا تاثر قائم نہیں ہوگا اپوزیشن جماعتوں کو وسیع تر قومی مفاد میں یہ اہم نکتہ فراموش نہیں کر نا چاہیئے۔ اپوزیشن کی طرف سے ایک عرصے سے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ سننے میں آتا رہا ہے اب اگر گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے پسندیدہ نمائندوں کا انتخاب کر لیا ہے تو اپوزیشن کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر نا چاہیئے۔گلگت بلتستان کے عوام بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ووٹ کو عزت دی جائے۔توقع کی جانی چاہیئے کہ الزامات کی گرد بیٹھ جانے،حکومت سازی کا عمل مکمل ہو نے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کے حل کی جانب پیشرفت ممکن ہو سکے گی۔سیاست کے سینے میں دل تو نہیں ہوتا لیکن انتخابی نتائج کو تسلیم کر نے کیلئے ہمارے سیاستدانوں کو کہیں نہ کہیں سے دل ڈھونڈنا پڑے گا جسے نا صرف سینے میں ڈالنا ہوگا بلکہ اسے بڑا کر کے انتخابی نتائج کو تسلیم کر نے کا حوصلہ بھی پیدا کر نا ہوگا۔ہمارے ہاں عدالتی فیصلوں اور انتخابی نتائج کے حوالے سے سیاستدانوں کی روش کچھ عجیب ہی رہی ہے کسی عدالت سے اپنے حق میں آنے والے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیکر شادیانے بجائے جاتے ہیں اور عدالت کی غیر جانبداری پر مہر تصدیق ثبت کی جاتی ہے لیکن اسی عدالت سے اپنے خلاف آنے والے کسی بھی فیصلہ پرہمارے سیاستدان عدالتی نظام پر فوری سوال اٹھادیتے ہیں اور عدالت کو متنازع بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔یہی طریقہ انتخابی نتائج کے حوالے سے بھی روا رکھا جاتا ہے اپنے حق میں آنے والے انتخابی نتائج کو عوام کے اعتماد سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ شکست کی صورت میں دھاندلی کے الزامات لگا کر نتائج کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔انتخابی دھاندلی کا الزام لگانے والے سیاستدانوں سے یہ سوال کیا جانا چاہیئے کہ جن نشستوں پر آپ کو کامیاب ملی جن حلقوں میں آپ کامران ٹھہرے وہاں انتخابی دھاندلی کے سائے کیوں نہیں پڑ سکے۔دھاندلی کا آسیب صرف ان حلقوں پر ہی کیوں منڈلاتارہاجہاں مخالف سیاسی جماعت کو فتح نصیب ہوئی۔ گلگت بلتستان کے عوام نے راستوں پر جمی برف اور انتہائی سرد موسم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گرم جوشی سے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے۔ ہمارے اہل سیاست کو بھی اپنے رویوں پر جمی برف کو جھاڑ کر فراخدلی کا مظاہرہ کر نا ہوگا۔ آخر ہماری آنکھیں ایسا منظر کب دیکھ پائیںگی جب ہارنے والے جیتنے والوں کو مسکراتے چہروں سے مبارکباد پیش کررہے ہوں اورہماری سماعتیں ایسی آواز کب سن سکیں گی جب مخالف جماعت کے بیلٹ بکس میں جانے والے ووٹ کے بارے میں بھی کہا جارہا ہوکہ '' ووٹ کو عزت دو''۔