جمعۃ المبارک‘ 11؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 27؍ نومبر 2020ء
وزیراعظم‘ شجاعت ملاقات میں بریک تھرو‘ ساتھ ملکر چلنے کا عہد
میاں نوازشریف کی طرف سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری ظہورالٰہی کو چودھری شجاعت حسین کی علالت کے حوالے سے دعائے صحت کا ٹیلیفون کیا آیا‘ حکمرانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ کاش اس قسم کا ٹیلیفون بہت پہلے میاںبرادران کی طرف سے چودھری برادران کو آیا ہوتا تو آج ان دونوں کے درمیان حائل یہ خلیج کب کی پاٹی جا چکی ہوتی۔ قصہ مختصر رات گئی بات گئی۔ جو ہونا تھا ہو چکا۔ میاں اور چودھری برادران میں گزشتہ روز جو ٹیلیفونک رابطہ ہوا‘ میاں نوازشریف نے چودھری شجاعت کی صحت یابی کی دعا کی اور پرویزالٰہی سے بھی حال احوال پوچھا۔ یہ ٹیلیفون کیا ہوا‘ ایوان حکومت میں بھونچال ہی آگیا۔ وزیراعظم بذات خود چودھری شجاعت کی عیادت کیلئے لاہور آگئے۔ دیر آید درست آید۔ چودھری صاحب کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے بھی کافی دن ہو چکے ہیں‘ بہر کیف اس ملاقات میں وزیراعظم نے …؎
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
میں یونہی مست نغمے سناتا رہوں
والی بات دہرائی گئی۔ دوریاں ختم کرنے کی باتیں ہوئیں۔ چودھری برادران کی طرف سے بھی شکوے شکایات ہوئے ہونگے مگر خان صاحب نے ساتھ نہ چھوڑنے کا عہد دہرایا۔ اس کے باوجود سپیکر پنجاب اسمبلی کا چھٹی پر جانا عجیب لگتا ہے۔ سب جانتے ہیں اگر چودھری برادران پھسلے تو پنجاب کا تاج و تخت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ نقصان پی ٹی آئی کا ہی ہوگا۔ چودھری برادران تو تب بھی فائدہ میں ہونگے ۔پنجاب کا تاج ان کے سر سج سکتا ہے۔
٭٭……٭٭
پاکستانی شہریت برائے فروخت نہیں جو ہر کسی کو دی جائے: پشاور ہائیکورٹ
شکر ہے کسی کو تو یہ خیال۔ ورنہ پاکستان کو تو لوگوں نے مہاجرستان سمجھ لیاہے۔ کیا بنگال‘ کیا افغانی‘ کیا افریقی ‘ کیا عراقی جسے کہیں جگہ نہیں ملتی تھی‘ وہ پاکستان آکر چند ٹکے دیکر یہاں کی شہریت حاصل کر لیتا۔ خدا غارت کرے نادرا کے ان کرتادھرتائوں اور محکمہ پاسپورٹ والوں کو جنہوں نے چند روپے کی خاطر پاکستانی شہریت کو زرخرید لونڈی سمجھ کر کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ ہوس زر کی انتہا ہے ۔اس وقت لاکھوں غیرملکی پاکستانی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ بنے ہیں۔ ہزاروں نے پاسپورٹ حاصل کر لئے۔ اس بل بوتے پر ملک کے کسی شہر میں جائیں‘ آپ کو ان غیرملکی افغانیوں کی خریدی جائیدادیں‘ مارکیٹیں‘ شاپنگ پلازے‘ بنگلے نظر آئیں گے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ 1980 ء کے بعد سے پاکستانی شہریت کی فروخت کا دھندا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اب پشاور ہائیکورٹ میں کس دیدہ دلیری سے افغانی خاتون نے درخواست دی ہے کہ وہ 1981ء سے پاکستان میں آئی ہیں۔ اس لئے اسے شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے اس بارے میں جوریمارکس دیئے‘ وہ ایک سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ اگر حکومت اور عدالت نادرا والوں اور افغانیوں‘ عراقیوں‘ بنگالیوں کی غیرقانونی بوگس دستاویزات کو تصدیق کرنے والے افسران اور عوامی نمائندوں کو کڑی سزا دیں تو دو نمبری سے پاکستانی شہریت حاصل کرنے والوں کی راہ روکی جا سکتی ہے۔
٭٭……٭٭
کچے کے علاقے میں پھر آپریشن‘ 3 ڈاکو اور ایک خاتون ہلاک
خدا جانے اس کچے کے علاقے میں یہ ڈاکوئوں کی فصل ہر سال کیسے پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ پولیس والے‘ رینجرز والے ہر سال اس تیار فصل کی کٹائی کیلئے آپریشن کرتے ہیں۔ گھاس پھونس کو آگ لگا دیتے ہیں۔ جدید اسلحہ اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھی پولیس نجانے کن لوگوں کو نشانہ بناتی ہے۔ ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے دعوے ہوتے ہیں۔ چند ایک مریل قسم کے قریب المرگ یا کچھ نہ کرنے کی سکت رکھنے والے ڈاکوئوں کو پکڑا بھی جاتا ہے۔ مگر پھرہر سال نیا آپریشن شروع ہوتا ہے۔ اتنی نفری کے ساتھ ان آپریشنوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ ڈاکو اور ڈاکے قابو میں نہیں آتے۔ وہ اپنے سرپرستوں کی چھتری تلے مزے لیتے ہیں۔ گزشتہ روز کے آپریشن میں ابھی تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق 3 ڈاکو اور ایک ان کی خاتون ساتھی مارے گئے ہیں۔ اگر کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے ڈیرے ہیں‘ ٹھکانے ہیں تو آپریشن ہوتے ہی یہ سب کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ یا تو انکے سرپرست انہیں آ پریشن کی اطلاع پہلے ہی دے دیتے ہیں ورنہ یہ ڈاکو نمک تو نہیں ہوتے کہ پانی میں گھل کر غائب ہو جائیں۔ اب یہ چوہے بلی کا کھیل ختم ہونا چاہئے۔ حقیقی اور اصل آپریشن کرکے کچے کو ڈاکوئوں سے پاک کرکے وہاں نیشنل پارک بنایا جائے جہاں مگرمچھ‘ ریچھ اور شیر اور دیگر درندے پالے جائیں جو وہاں چھپنے والے ڈاکوئوں کا خود ہی کام تمام کر دیں گے۔
٭٭……٭٭
ایران نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیدیا
یہ ایک اچھی خبر ہے۔ کم از کم اس طرح خلیج فارس میں امن کی راہ تو ہموار ہو گی۔ ویسے بھی اب امریکہ میں ٹرمپ کا جنونی دور ختم ہو گیا ہے۔ اسی تناظر میں ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکہ کی طرف سے اچھے تعلقات کی طرف پیش رفت پر اپنی طرف سے بھی اچھے تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے امریکہ کی طرف سے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی بات کب ہوتی ہے اور خلیج میں امن کی راہ کب نکلتی ہے۔ ایرانیوں نے جس ثابت قدمی سے امریکی پابندیوں کا سامنا کیا وہ ایک مثال ہے۔ اب امریکہ بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے صلح اور امن کی بات کرے۔ اس طرح کم از کم ایران کی ترقی اور ایرانی عوام کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ایران تیل سے مالا مال ملک ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات بحال ہوتے ہیں تو تیل کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان میں ایرانی تیل اور قدرتی گیس کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہونے سے ہمیں تیل بجلی اور گیس کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ جس سے فائدہ پاکستانی عوام کو ہو سکتا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی برادر ملک ہے جہاں امن و ترقی اور باہمی تجارت کا فائدہ پاکستان کو بھی ہو سکتا ہے۔