’’ دریائے انور ؔعزیز ، عالم جاوداؔنی کے سمندر ؔمیں !‘‘

سابق وفاقی وزیر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کے والد ِ بزرگ اور رُکن قومی اسمبلی مہناز اکبر صاحبہ کے سُسر ، (میرے عزیز دوست ) 1963ء سے ’’ زلف ِ سیاست ‘‘ کے اسیر اور مزاج کے لحاظ سے فقیر / درویش ، مرحومین وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کی کابینہ کے رُکن ، شکر گڑھ کی ’’ جم پل ‘‘ انور عزیز چودھری 22 نومبر کو خالق ِ حقیقی سے جا ملے ہیں اور اُنہیں اگلے روز شکر گڑھ ؔ ، ضلع نارووال میں سپرد خاک کردِیا گیا ہے ۔
معزز قارئین !۔ اکتوبر 1990ء کے عام انتخابات کے دَوران ، انور عزیز چودھری اور اُن کے دو دوست ، شفاعت احمد خان اور محمد عارف خان اچانک نارووال اور شکر گڑھ کی نشستوں سے دستبردار ہو گئے تو، اُن کے کئی سیاسی مخالفین نے اُس پر تنقید کی تھی تو، مَیں نے ’’ دریائے انور عزیز ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ انور عزیز چودھری محض ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ایک دریا کا نام ہے اور ’’دریائے انور عزیز ‘‘ ، شکر گڑھ کی زرخیزی ، ترقی و خوشحالی کے لئے بہتا ہے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف۔ رُخ تبدیل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دریائے انور عزیز چودھری ’’ بُڈھا دریا ‘‘ کہلانا پسند نہیں کرتے‘‘۔
’’ دریائے انور عزیز۔ پھر طغیانیؔ پر!‘‘
25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں (87 سال کی عمر میں ) انور عزیز چودھری پنجاب اسمبلی سے انتخاب لڑنے کا اعلان کِیا تو، میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ دریائے انور عزیز۔ پھر طغیاؔنی پر !‘‘۔مجھے یقین ہے کہ ’’ اگر انور عزیز چودھری پنجاب اسمبلی میں پہنچ گئے تو، وہاں کوئی نہ کوئی ’’کھڑاک ‘‘ تو، ضرور ہوگا!۔
معزز قارئین !۔ مَیں 1964ء میں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا اور کنونشن مسلم لیگ کے انور عزیز چودھری مغربی پاکستان اسمبلی کے منتخب رُکن۔ اُنہوں نے امریکہ کی "Michigan University" سے ’’ ایل۔ ایل۔ ایم‘‘ (Master of Laws) کی ڈگری حاصل کی اور ایک امریکی خاتون "Khathleen" کو مسلمان بنا کر ، اُس سے شادی کے بعد پاکستان لے آئے ۔
’’مجلس یاراں ‘‘ میں اکثر حضرت میاں محمد بخشؒ ، سیّد وارث شاہ ؒاور دوسرے صُوفی شاعروں کا کلام گُنگناتے اور کبھی گاتے تو، لوگ اُن کی پنجابیت ؔپر فریفتہ ہو جاتے ۔ انور عزیز چودھری کو اردو ، فارسی اور انگریزی کے ہزاروں اشعار ازبرتھے۔
پھر دوستوں کے اصرار پر چودھری انور عزیز پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور 1977 ء کے عام انتخابات میں این۔ اے ۔110 سیالکوٹ ۔7 کی نشست پر کامیاب ہوگئے اور وزیراعظم بھٹو نے اُنہیں اپنی کابینہ میں بھی شامل کرلِیا۔
5 جولائی 1977ء کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند تھے ۔ اچانک انور عزیز چودھری میرے (روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ لاہور کے ) دفتر آئے ۔اُنہوں نے مجھے انگریزی مسّودہ دِیا اور کہا ’’یار اثر چوہان! ۔ اَج سویرے میری بھٹو صاحب نال ٹیلی فون تے گَل ہوئی اے۔ اونہاں نے قوم دے نام پیغام دِتاّ اے ۔ مَیں اوہ انگریزی وِچ لِکھ لیا اے ۔ تیری اردو چنگی اے ۔ مَیں ایہہ خبر ’’ مساوات‘‘ وِچّ چھپوانا چاہونا واں !‘‘۔مَیں نے ترجمہ کردِیا تو، اگلے روز وہ خبر روزنامہ ’’ مساوات ‘‘ کی "Lead Story" تھی۔
فروری 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انور عزیز چودھری شکر گڑھ سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہُوئے۔ تین دِن بعد لاہور آئے تو، میرے دفتر میں بھی۔ اُن دِنوں میرا دفتر، دربار داتا صاحب ؒ لاہور کے قریب تھا۔ اُن کے ساتھ اُن کا ایک دوست تھا۔ اُن کے ڈرائیور نے گاڑی میرے دفتر کے باہر کھڑی کردِی اور چودھری صاحب مجھے اور اپنے دوست کو بھاٹی گیٹ کے اندر گلیوں میں گھماتے ، پھراتے ایک بابا جی ؔ کے پاس لے گئے۔بابا جی ؔکے ’’ ڈیرے‘‘ پر بچھی چارپائیوں پر ہم تینوں بیٹھ گئے ۔ بابا جی نے چودھری صاحب سے کہا کہ ’’ تُوں فَیر وزیر بننا چاہونا ایں ؟ ‘‘۔
چودھری صاحب نے کہا ’’ جی بابا جی!‘‘۔ بابا جی بولے کہ ’’ تے فَیر جا بن جا، مَینوں کِیہ؟‘‘۔ پھر بابا جی نے مجھ سے پوچھا کہ ’’تُوں کِیہ بننا چاہونا ایں ؟‘‘ ۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ’’ بابا جی ! مَیں تے بندہ اِی بن جاواں تے میرے لئی کافی اے ‘‘ ۔
بابا جی نے بولے کہ ’’ فَیر جا ! بندہ بن جا ، مَینوں کِیہ ‘‘۔ چند دِن بعد انور عزیز چودھری وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ کے رُکن بن گئے ۔ اور مَیں بندہ بننے کی کوشش کرتا رہا۔ ( ابھی تک کر رہا ہُوں) چند دِن بعد انور عزیز چودھری پھر لاہور آئے اور مجھے اور اپنے ایک دوسرے دوست کو ساتھ لے کر بابا جی کے ’’ ڈیرے‘‘ پر لے گئے تو،وہاں موجود لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ’’ بابا جی ، تو دو سال پہلے ہی یہاں سے کہیں چلے گئے ہیں۔ کہاں گئے ہیں ؟ ہم نہیں جانتے !۔
نامور شاعر جناب احمد ندیم قاسمی نے شاید اپنی یا انور عزیز چودھری کی طرف سے کہا تھا کہ …
’’کون کہتا ہے کہ موت ؔآئی تو مر جاؤں گا !
میں تو دریا ؔہوں سمندر ؔمیں اتر جاؤں گا !‘‘
…O…
معزز قارئین !۔ مَیں بھی یہی کہتا ہُوں کہ۔ میرا دوست ’’ دریائے انور عزیز ۔ عالم جاودانی کے سمندر ‘‘ میں اُتر گیا ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ …
مرنے والے ، مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں !
وہ حقیقت میں کبھی، ہم سے جُدا ہوتے نہیں !
…O…
مرنے والوں کی جبیں ،رَوشن ہے اِس ظلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں !
…O…