عمران خان نے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ بقول انکے انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنائی جاسکے اور ہارنے اور جیتنے والے دونوں فریق نتائج کو قبول کریں۔ وزیراعظم نے سینٹ انتخابات میں شوف آف ہینڈ اور سمندر پار پاکستانیوں کیلئے انتخابی عمل میں شمولیت کا نظام لانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ شاید ہی کوئی الیکشن ایسا ہوا ہو جس میں دھاندلی غیر شفافیت اور ووٹ چرانے کے الزامات عائد نہ کئے گئے ہوں۔ 2013ء میں عمران خان کا بنیادی مطالبہ چار حلقے کھولنے کا تھا۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام پر اخراجات کا تخمینہ بھی غیرمعمولی ہے۔ پاکستان کو 360,000 الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درکار ہوں گی۔ ایک مشین کی قیمت 780 ڈالر کے قریب ہے۔ یوں 80 ارب روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ احوال سیاست بتاتے ہیں جی بی کے نتائج کے بعد حکومت مطمئن ہے۔ سردست اس کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔ کورونا وائرس کے باعث اجتماعات پر عدالتی پابندی کے بعد اپوزیشن کے واقعی اپنے جلسوں کو ملتوی کر دیگی یا واقعی اپنے جلسے شیڈول کے مطابق جاری رکھے گی۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا پڑیگا کیا وہ لوگوں کی اموات کا باعث بننا چاہیں گی۔ موجودہ حالات میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ایسا انتخابی نظام لانا ہے جس کے نتائج سب ماننے کیلئے تیار ہوں۔ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت سب تسلیم کرتے ہیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ انتخابی قوانین کی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے میں کیا حرچ ہے۔ ن لیگ نے اپنے دور حکومت میں پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی نے پورا اصلاحاتی پیکیج بنایا تھا جس کی پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی دیوار کون تعمیر کریگا۔ سندھ میں ’’بڑے‘‘ کورونا کا شکار ہیں۔ 27 نومبر کو ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی بے نظیر بھٹو کی لخت جگر آصف علی زرداری کی دختر بلاول بھٹو کی بہن بختاور کی منگنی کا اجتماع اہم ترین شخصیات پر مشتمل ہوگا۔ سارے مہمان کورونا ٹیسٹ کے تکلف سے گزر کر تشریف لائیں گے۔
حکومت کے 27 ماہ میں دالیں 17 سے 130 روپے کلو مہنگی‘ چینی 102‘ گڑ کی قیمتوں میں 71 فیصد اضافہ ہوا۔ مشیر خزانہ کے خیال میں پانچ ہزار ارب روپے قرض ادا نہ کرتے تو عوام کو بہت کچھ دے سکتے تھے۔ بجلی کے صارفین حیران ہیں کہ وہ تو اپنے بل وقت پر اور پورے ادا کرتے ہیں پھر یہ 2250 ارب روپے کے گردشی قرضے کیسے؟ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں وصولیوں کی صورتحال خراب ہے۔ عدم ادائیگی پر میٹر اتاریں تو صارفین کنڈے لگا لیتے ہیں۔ بجلی چوری میں متعلقہ کمپنی کا عملہ ملوث ہوتا ہے۔ لائن لاسز ختم نہیں ہو سکتے تو انہیں کم سے کم سطح پر لایا جائے۔ آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی تیاری و خریداری کے معاملات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ڈالر پھر 160 کی سطح پر جا پہنچا۔ سونا 450 روپے مہنگا ہو گیا۔ معیشت 0.4 فیصد سکڑ گئی۔ 1952 کے بعد پہلی بار منفی معاشی نمو سامنے آئی ہے۔ انڈے 195 روپے فی درجن تک پہنچ گئے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کراچی کی سڑکوں پر بھی سندھ کے جزائر پر جدید شہر کی تعمیر کیخلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت جزائر کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لائے۔ حکومت کے نزدیک بنڈل جزائر کی ترقی سندھ کی ترقی ہے۔ یہاں سے ہونیوالی آمدنی صوبے کی آمدنی کے طور پر سندھ کی ترقی پر ہی خرچ ہوگی۔ کراچی میں طویل عرصے سے معطل سرکلر ٹرین کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے انڈرگارمنٹس سے بخوبی واقف ہیں۔ ایک وقت تھا کہ دونوں کا قائد مدہوش بھائی ہوا کرتا تھا۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں افسر براجمان ہو چکے ہیں۔ لیکن صفائی جیسے معاملات پر وزیراعلیٰ نے نوٹس لینا ہے تو پھر افسر کس لئے ہیں۔ وزیراعظم نے ہر طرف گندگی کے ڈھیر بچشم خود ملاحظہ کئے ہیں۔ ملتانی پی ڈی ایم کے جلسے کے منتظر ہیں جس کی میزبان پیپلزپارٹی ہے ہسپتالوں کے اچانک معائنے وزیر اور سیکرٹری محنت کیوں نہیں کرتے کیا سارے کام وزیراعلیٰ بزدار نے کرنے ہیں۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38