’’پُھونکیں اور کرنٹ‘‘

یک دم اُس نے ماسک اُتارا اور زور سے چائے والی ٹرے میں پُھونک مار دی ۔ ایکشن اتنا اچانک کہ میں گھبرا اُٹھی ۔یہ کیا کر دیا تم نے ؟ کچھ نہیںکیا ’’باجی‘‘۔ یہ کیا حرکت تھی۔ بیماری ۔ جراثیم سے بچاؤ کے لیے ماسک پہنایا تھا تو نے ’’100 ڈگری‘‘ والا خوفناک کام کر دیا۔ جواب ملاخطہ فرمائیں ۔ باجی چائے میں پُھونک نہیں ماری ،مگ دُور تھا ۔ سوچئیے سال بھر سے سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایات نشر ہورہی تھیں وہ بھی انسانوں کے مابین اور یہاں چھوٹی سی ٹرے میں دھری پیالی زور دار پُھونک سے کیسے محفوظ رہ سکتی تھی۔ چند سیکنڈ کے ایکشن نے مہینہ بھر کی ’’ایس او پیز‘‘ کو تہہ و بالا کر دیا ۔بعینہ مہینوں کی محنت ۔ صبر آزما پابندیوں پر ایک ماہ کی شادیوں کی اجازت نے پانی پھیر دیا۔
اتنا فاصلہ نہیں تھا۔ شرکت مجبوری تھی۔ آمنے سامنے کرسیاں دھری تھیں بالمقابل فروکش بزرگ کو تیز کھانسی۔ نزلہ کا حملہ ہوا۔ کھانستے ہوئے جیب سے ٹشو نکالا ۔ منہ ۔ ناک صاف کر کے پھینکنے کی بجائے واپس جیب میں رکھ لیا۔ اُن کو دوسرا ماسک دینے کے عین دوران بالکل ساتھ بیٹھے ’’دوسرے مریض‘‘ نے ماسک اُتارا اور خون خشک کر دینے والی چھینک مار دی ۔ آدھ گھنٹہ کی تقریب ۔ 10 مرتبہ ماسک پہننے اور فاصلہ رکھنے کی ہدایات دینا پڑیں ۔ آجکل تو ’’کرونا‘‘ کا خوف ایک دوسرے سے دُور رکھنے پر مجبور ہے پر عادات میں ذرا سی تبدیلی نہیں ۔ ہم وہ قوم ہیں جو اولاً تسلیم نہیں کرتے ثانیا ًبھول جلدی جاتے ہیں ۔ نہیں بھولتے تو صرف نااہلوں ۔ کرپشن زدہ مافیا کو ووٹ دینا۔ دیہات کیا شہروں میں بھی 80% آبادی اُبلتے دودھ۔ چائے کو گرنے سے بچانے واسطے پُھونکوں کا استعمال کر تی ہے۔ ایسی قوم ’’ایس او پیز‘‘ پر کیا عملدرآمد کرے گی جو گرم مشروبات نوش کرنے سے قبل ہر مرتبہ پُھونک مارے۔سامان ڈالنے کے لیے ’’شاپرز‘‘ کو پُھونک مارے ۔ تھوک لگا کر نوٹ ۔ کاغذ کی گنتی کرے ۔ کتاب پڑھتے وقت بھی متذکرہ بالاعمل دہرائے۔کسی نے قوم کی ترقی کے نام پر ’’اربوں روپے‘‘ لیے اورایک ہی پُھونک میں اڑا دیئے ۔یہ ترقی کہاں ہوئی ۔ پیسے کہاں خرچ ہوئے ؟قوم خالی پیٹ کے ساتھ ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ پُھونک بھی کیا عجیب چیز ہے۔لینے والے کھا گئے ۔جن کے نام پر لیے ۔وہ قرضے ُاتار رہی ہے۔
’’10-15‘‘ سال پہلے کا واقعہ ۔ کِسی گھر میں جانا ہوا۔ میزبان نے ’’اردلی‘‘ کو سبز قہوہ بنانے کا کہا۔ لاؤنج کچن سے ملحق تھا۔ ایسے ہی نظر اُٹھی تو دل دھک سے گیا ۔ ملازم ’’سبز الائچی‘‘ کو دانتوں سے توڑ رہا تھا ۔ احتیاطی تدابیر ۔ حفظانِ صحت کے اصول تو کچھ ماہ پہلے اپنانے (وہ بھی کرونا باعث) کی تلقین سُن اور کر رہے ہیں ۔ یہ تو’’ 10-15’’ سال قبل کا مشاہدہ ہے۔ ملازم بھی ان پڑھ نہیں ۔ سرکاری پڑھا لکھا تھا۔ تب سے لمحہ موجود تک کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور ہوگی بھی نہیں کیونکہ ہم بہت پختہ ۔ پُشتینی عادات ۔ مزاج کے حامل معاشرے کے باشندے ہیں۔ نہ تعلیم نہ دولت نہ عہدہ ۔ سب برابر صرف جنیاتی حرکت سب پر حاوی جس طرح برادری ازم ۔
دو تصویریں۔ کرونا کا پہلا فیز ۔ سماجی فاصلہ کے تحت ایک کُرسی چھوڑ کر دوسری پر بیٹھنے کی ہدایت ۔
مزیدار تصویری لطیفہ ۔ ایک منظر ۔ ایک کُرسی پر ’’کراس‘‘ کا نشان ۔ اگلی پر 3 خواتین اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ یہ لکھتے ہوئے ذہن موجودہ منظر نامہ کی طرف جا نکلا۔ کل کے مخالف۔ سیاست کو ذاتیات کی تذلیل میں انتہائی حد تک گھسیٹنے والے ایک ہی کُرسی پر براجمان ۔’’کرونا اور خان صاحب‘‘ نے حالات و واقعات کو کس قدر بدل ڈالا ۔ ہم سے زیادہ پڑھنے والے باشعور ۔ باخبر اور آگاہی رکھنے والے ہیں ۔
دوسری تصویر ۔ ایک تحریر ۔ ٹیلی فون ایکسچینج (خبردار) دیوار کو ہاتھ نہ لگائیں ۔ کرنٹ ہے۔ قارئین نیچے تحریر تھی ۔ اُوپر دیوار پر’’ 8 افراد‘‘ بیٹھے تھے۔ کیا یہ قوم ’’کرونا‘‘ سے ڈرے گی ؟ بنظرِ حقائق ؑعصرِ حاضر کی صورتحال ۔ کیفیت دیکھیں تو پوری قوم ’’کرنٹ‘‘ پر بیٹھی ہے۔ نہ کاروبار۔ نہ نوکری ۔ نہ کھانے پینے کا سامان آسانی سے میسر ۔ ہر چیز ۔ ادارہ۔ افراد ’’الیکڑک پول‘‘ پر بیٹھے ہیں ۔ اردگرد سینکڑوں خوش خبریاں بانٹتے ڈھولچی رقصاں ہیں۔ مستی غائب الوجود کا ماحول ہے۔ کیفیت ایسی کہ نہ کِسی کے آنے کی خوشی نہ جانے کا غم ۔ اِک ہجوم محو تماشا ہے۔ پھر سے اداس۔ بیزار کر دینے والی اطلاعات ۔ خبریں ۔ زندگی نے تھوڑے عرصہ کے لیے کھڑکی کھول کر ابھی جھانکا تھا کہ شکاری فٹ سے پنجرہ لیکر پہنچ گئے ۔ دو مہینے قوم نے خوب شادیاں بُھگتائیں ۔ اب بُھگت رہی ہے۔ سردیوں میںشادیوں پر مکمل ۔ ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دیں۔ ہماری ’’80 فیصد‘‘ آبادی موسم سرما میں نزلہ ۔ بخار کا شکار ہوتی ہے۔ یہ بیماری ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے اور اکثریت تو صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ مبتلا ہوتی ہے۔ اُوپر سے ظلم ۔ ٹھنڈے مشروبات ۔ آئس کریم۔ فالودے ۔ قلفیاں ۔ ہمارے شوق لذت بھی تو کوئی کنارہ نہیں رکھتے ۔ ’’مارچ ۔ اپریل‘‘ میں اجازت ہو وہ بھی کُھلے مقامات اور صبح کے اوقات تاکہ وقت ۔ وسائل اور بجلی کی بچت ہو۔ دوسرا اس اقدام سے موسمی موذی بیماریوں سے محفوظ رہنے میں بہت مدد ملے گی۔
عشق دا کلمہ
رب ملیا مینوں مُرشد وچ
مُرشد ملیا مینوں رب وچ
دونوں مِلے مینوں میری ماں وچ
’’وہ عشق جو ہم سے رُوٹھ گیا ‘‘۔ زندگانی اُس کی جستجو میں تھی کہ کتابِ زندگی نے ’’عشق دا کلمہ‘‘ ہاتھوں میں تھما دیا ۔ متاثر کُن انداز ِبیان ۔ دلکش ٹائٹیل کی چاشنی دو آتشہ ہو جاتی ہے جب تحریر ’’ صاحبِ تحریر ‘‘ کا عکس بن جائے۔ میری بہت پیاری دوست ۔ ہماری خیر و برکت کی راہوں کی ہمراہی۔ ’’نازیہ احسان‘‘ کی نئی کتاب ’’عشق دا کلمہ‘‘ صوفیانہ کلام کا بہترین نمونہ ۔ ’’سچ گل‘‘ نے کتنی گہری ۔ بامعنی داستان عیاں کر دی۔ بس دو ذاتاں ۔ سچیاں خالص ۔ اک رب دُوجا اُس دا حبیب ﷺ۔ باقی سب جگ انج دا جیویں ۔ دودھ وچ پانی رلیا ہووے۔