کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

انسانی زندگی کی معنویت بڑی پر پیچ رہی ہے۔
’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کے مصداق کائنات کے اسرار و رموز انسانی فطرت کا بھی حصہ ہیں۔ آخر کیوں نہ ہوں یہ ذرہ بے تاب وقت کی موجوں سے کبھی سیپ تلاش کر کے ان کی چمک عریاں کرتا ہے اور کبھی ان قیمتی موتیوں کو اپنی بے اعتنائی اور تعصب کی بدولت گرد میں دبا کر یوں چھپاتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو بھی اپنے نقصان کا اندازہ نہ ہو سکے۔ اور لوگ کلچر اور تہذیب کے نام پر ان موتیوں کو تاریخ کا حصہ بنا کر کبھی محقق کہلاتے ہے اور کبھی موجد۔ عریانی و پنہاء کا یہ کلیہ کائنات کے نظام کی روح ہے۔ زمین کو آسمان نے ڈھانپ رکھا ہے آسمان کے بہت سے رازوں پر ستاروں کی چھینٹ نے شکوک و اوہام کی مہر لگا رکھی ہے۔ زمین کے اسرار گہرے پانیوں کی تہہ۔ پہاڑوں کی گرفت اور صحرائوں کی ہیبت تلے دفن ہیں جن کی نقاب کشائی کے لیے کبھی ستاروں پر کمندیں ڈالی جاتی ہیں اور کہیں قعر دریا میں سورج کی کرن پہنچنے کی امید رکھی جاتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ…؎
https://www.nawaiwaqt.com.pk/17-Jan-2021/1281074
دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
گویا کائنات میں سب سے اہم ڈھانپنا ہے۔ رات دن ایک دوسرے کو ڈھانپتے ہیں۔پتے درختوں کا لباس ہیں۔خوشبو کو پھول نے ڈھک رکھا ہے۔ انسانی معاشرت بھی اسی اصول کی تابع ہے۔ انسان ہوں یا جانور اپنے بچوں کو اپنے پروں اور اپنی حفاظت کے سائے تلے ڈھانپ کر زمانے کے گرم و سرد سے محفوظ رکھتے ہیں۔ رشتوں کی صورت بھی ایک دوسرے کا لباس بن کر ان کی خامیوں کو ڈھانپے کی سعی کی جاتی ہے کہیں انسان اپنے زخموں کو ڈھانپے رکھتا ہے اورکہیں غم کو قہقہوں تلے دفن رکھتا ہے کہ عریانی اسکی عزت نفس کو مجروح نہ کر دے۔ اشیائے ضرورت میں بھی ڈبے ،کور اور مختلف اقسام کے ریپر ان کو ڈھانپنے کیلئے تیار کیے جاتے ہیں۔ سالن روٹی ہو یا کھانے کی کوئی اور چیز ان کو ننگا نہیں رکھا جاتا۔ نقاب سازی کا یہ عمل دفتری، قانونی، حکومتی اور سیاسی امور میں بھی جاری و ساری ہے۔ سر پر چھت اور گٹر پر ڈھکن لگا کر ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے۔ اور ایسی چیز جسے اوپر ڈال دینے یا لگا دینے سے کوئی چیز چھپ جاتی ہے یا بند ہو جاتی ہے اسے ڈھانکنے کی چیز یعنی ڈھکنا یا سر پوش کہتے ہیں۔ کئی جگہوں پر تو ڈھکن کے یہ فرائض انفرادی و اجتماعی صورت میں انجام پاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمیں علم ہی نہیں کہ کچھ حقائق چھپانے میں کیا مصلحت ہے اور باتیں ظاہر کرنا اور بتانا کتنا ضروری ہے ‘‘عظیم ہستیاں اقوام کے باطن میں چھپی تخلیقی قوتوں کے ڈھکن کھول دیتی ہیں’’ (پیش لفظ آتش چنار )۔ گویا ہر جگہ پردہ لگانا ضروری نہیں ہوتا، رونمائی کی صورت اس پردہ کا ہٹنا بھی ضروری ہے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے رسمی تکلفات کے پردے گرانا پڑتے ہیں۔ جس طرح دائی سے پیٹ نہیں چھپایا جا سکتا اسی طرح کسی عزیز دوست کے سامنے اسکی خامیوں یا اپنی مجبورہوں سے پردہ ہٹا کر دکھانا پڑتا ہے تا کہ صورت حال بہتر ہو سکے۔پردہ دل پر زنگ کی صورت ڈھکن بن جائے یا آنکھوں پر پڑ تباہی و بربادی کی تصویر بنانے لگے تو اس کا اتارنا ضروری ہوتا ہے اور اگر یہ پردے عقل پر پڑ جائیں تو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ بقول انور مسعود…؎
بھل چک ہوندی انکھیاں کولوں دل جرمانے بھر دا اے
بد قسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جو خود ڈھکن بن کر لڑھکتی پھر رہی ہے اور ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کہاں بساط لپیٹنا ہے اور کہاں پردہ فاش کرنا ہے۔ جہاں دوسروں کی خامیوں کو ڈھانپنا ہو ہم وہاں کاروکاری اور ناک کان کاٹ کر مہر ثبت کرتے ہیں۔ اور جن معاملات کے لیے بے چینی امڈتی ہے ، ہم وہاں کمیٹیاں بنا کر تفتیش پر ایسا پردہ ڈالتے ہیں جو ایسا کمبل بن جاتا ہے جو اتارے نہیں اترتا۔ اور کئی ایسے رازوں پر خزانے کا وہ سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں تا کہ کوئی بھی ان سے شعور و آگہی کا کام نہ لے سکے۔ اسی کے متعلق شاعر کہتا ہے
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے۔جلد بازی میں ہم وہ احمق عظیم بن جاتے ہیں جو گٹر کے ڈھکن مشروبات اور بوتلوں کے ڈھکن سے گٹر بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ گٹر کو عریاں کیا جائے یا ڈھول کے پردہ میں سوراخ کیا جائے۔ اس کا خراج نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کئی ذہنوں کی تو سڑاند اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ڈھکن گٹر کی بجائے ان کی گندی سوچ پر لگا دیا جائے۔ جبکہ وہ راز جو عوام جاننا چاہتے ہیں ان پر گہرے پردے تان دیے جاتے ہیں اور انسان کی ذاتی زندگی سے وہ ڈھکن اٹھا دئیے جاتے ہیں جہاں بدن پر رستے لہو سے پیرہن چپک کر رفو کی حاجت ختم کر دیتے ہیں۔ بے جوڑ شادیوں کے پردے ہوں یا سازشوں کے۔چاہے
حد سے بوسیدہ ہوجائیں ان کا ہونا ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔اور ہم بے بسی میں یہ ہی کہنے کے عادی ہیں
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
کبھی یہ پردے جرم پر پڑتے ہیں اور کبھی انصاف کی آنکھوں پر۔ کبھی تو محافظوں کی بندوق سے چلنے والی گولی پر پڑے یہ پردے حقیقت کو لہو لہو کر دیتے ہیں۔
ہمیں تو مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے۔ ہمیں بہاروں کو چھپانے اور خزاں کو دکھانے کا مرض لا حق ہے۔ لیکن بھول جاتے ہیں کہ قدرت کے پردے ایک واضح نظام کے تابع ہیں۔ جب کہ ہمارے ہمارے بنائے اور لگائے جانے والے یہ پردے اس نظام کی توڑ پھوڑ کا سبب ہیں بقول شاعر خارزار کو رنگ بہار دینا آتا ہے اور نہ دست جنوں میں آبلہ سائی آتی ہے۔ سو نظام کی گندگی چھپانے والے یہ ڈھکن کاٹے نہیں کٹتے یہ پردے ہٹائے نہیں ہٹتے۔ ان کے پیچھے کیا کھیل کھیلا جاتا ہے ہمیں کچھ علم نہیں۔ مداری جو دکھانا چاہتا ہے کردار وہی زبان بولتے ہیں۔ سانپ بین پر نہیں ناچتا نہ ہی ٹوکری سے ڈھکنا اُترتا ہے اور بہت سے فیصلے مصلحتوں کے پردے میں چھپے رہتے ہیں اور ہم سب کی ڈھکن لگی زندگیاں سانس لیتی رہتی ہیں اور دعا کرتی ہیں
کہ کبھی صیاد بھی اپنے دام میں آ جائے۔
٭…٭…٭