اوآئی سی کا اجلاس ، بیکار کی مشق

جی ہاں یہ ایک حقیقت ہے وہ بھی تلخ حقیقت۔ او آئی سی نے آج تک مسلم امہ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر کچھ کیا ہو سوائے بے فائدہ اجلاس بلانے کے تو ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ ہم آئندہ اس جملے کی تصحیح کر سکیں۔ او آئی سی کے موجودہ اجلاس جو نائیجیریا میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور صدر آزاد کشمیر سردار مسعودخان بھی شرکت کر رہے ہیں۔ حسب معمول یہ دونوں حضرات اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھی موضوع بحث بنائیں گے اور او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرینگے۔ یہ مسئلہ کشمیر کوئی نیا تو ہے نہیں مسئلہ فلسطین کی طرح یہ مسئلہ بھی گزشتہ ستر بہتر برسوں سے عالم اسلام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ مگر یہود اور ہنود کی سازشوں کے مقابلے میں مسلم امہ کی تمام تر معاشی اقتصادی اور تیل کی طاقت اتنی بے بس ہے کہ وہ ان مسئلوں کو حل کرانے میں ناکام ہیں۔ ان مسئلوں کے حل کیلئے نہ تو ایٹمی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے نہ دنیا کا امن تباہ کرنے کی ضرورت۔ اسلامی ممالک اگر ملت واحدبن کر صرف بھارت اور اسرائیل کا سماجی ، سیاسی ، اقتصادی بائیکاٹ کر دیں اور ان سے ہر قسم کے رابطے ختم کر دیں تو ان دونوں مسائل کا حل نہایت منصفانہ انداز میں سامنے آ سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کرے تو کرے کون۔ اب تو عرب ممالک بھی جو او آئی سی کے مامے اور چاچے ہیں اسرائیل کے ساتھ سماجی و سفارتی تعلقات بحال کر چکے ہیں ماسوائے چند ایک کو چھوڑ کر تو کسی سے کون گلہ کرے۔ کرے بھی تو کیا گلہ کریں کس سے کریں کون سنے گا۔ یہی حال بھارت کا بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اس کے بھرپور گرمجوش سیاسی ، سماجی ، سفارتی ، اقتصادی اور نجانے کون کون سے خفیہ اور اعلانیہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان اپنی تمام تر سفارتی کوششوں اور خارجہ پالیسی کی کامیابی کے دعوئوں کے باوجود مسلم ممالک کو بھارت سے دور نہیں کر سکا۔ اب معلوم نہیں اسے ہم پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی کہیں یا امت مسلمہ کی بے حسی۔ اگر اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک بھارت کو نکیل ڈالیں اور اسے مسئلہ کشمیر کے حل تک وہاں موجود لاکھوں بھارتیوں کو صرف فارغ کرنے کی دھمکی دیں۔ بھارت کو تیل کی فراہمی روکنے اور اس کے ساتھ تمام اقتصادی و تجارتی معاہدے ختم کرنے کی دھمکی دیں تو بھارت چند ہفتوں میں گھٹنے ٹیک سکتا ہے۔ یہ کوئی الف لیلوی طلسمی کہانی نہیں ایک واضح حقیقت ہے۔ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو اس بے کار تنظیم کے اجلاس میں لاکھ تقریریں کر لیں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ہاں اگر آذر بائیجان والی مردانہ راہ نکالی جائے ۔ آذر ئیوں جیسا حوصلہ پیدا کیا جائے جس طرح انہوں نے اپنا مقبوضہ علاقے واپس لینے کیلئے سر پر کفن لیا۔ اسی طرح پاکستان بھی جرأت مندانہ قدم اٹھائے تو بات بن سکتی ہے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کی جنگ گواہ ہے کہ بڑی طاقتیں فوراً مسلح تصادم رکوانے کے لئے میدان میں کود پڑتی ہیں مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ مغربی طاقتیں اور روس کھل کر آرمینیا کے ساتھ کھڑی تھیں مگر آذر بائیجان ڈٹ گیا۔ کسی اسلامی ملک نے سوائے ترکی اور پاکستان کے کھل کر آذر بائیجان کی حمایت نہیں کی۔ انکے حق میں بولنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ مگر فتح حق کی ہوئی اور آذری حکومت نے اپنا چھینا ہوا اکثر علاقہ واپس لے لیا۔ اب اگر پاکستان بھی کچھ ایسا کرے تو غلط نہ ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر ہمارا حصہ ہے اور ہم اس کے دعویدار اور مالک ہیں اسے اپنی شہ رگ قرار دیتے ہیں تو پھر ہمیں آذر بائیجان کے نقش قدم پر ہی چلنا چاہئے چاہے کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے۔ اگر او آئی سی کی اجازت اس کام میں درکار ہے تو پھر پہلے او آئی سی کو اعتماد میں لیا جائے اور اپنے عالمی دوستوں کو اعتماد میں لیکر کچھ ہلکا پھلکا قوت ایمانی کا مظاہرہ کریں تو مسئلہ کشمیر کے جلدحل کی راہ نکل سکتی ہے۔ ورنہ او آئی سی کے پروں تلے مسلم ممالک کے علاوہ بھارتی حکومت کا مبصر بھی گھسا بیٹھا ہے۔ اسلام امہ کی غیرت نے یہ کیسے گوارہ کر لیا کہ ایک کافر غیرمسلم ملک کو اپنی تنظیم میں مبصر کی جگہ دیدی۔ ایسی بے روح بے عمل تنظیم سے خیر کی توقع کون رکھ سکتا ہے۔ یہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا کی نقیب تنظیم ہے۔ حرکت کی برکت سے عاری بے عمل تنظیم ورنہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کوئی ایسے لاینحل مسئلے بھی نہیں ہیں کہ جن کا علاج جن کا حل نکالا نہ جا سکتا ہو۔