ہندوستانی سماجیات کے زیر اثر پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور خود ہندوستانی اکثریت مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے ہوئے ہے۔ یہ ایسی جامد ثقافت ہے جو رسم و رواج کا حصہ اپنائے رکھنے پر مجبور رکھتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے رائج ہونے کا بنیادی سبب ہندو طرزِ معاشرت میں یہ تھا کہ اس کے ذریعے کئی گھروں کے افراد ایک ساتھ خرچے کو تقسیم کر لیتے تھے اسی سے ان کو اخراجات میں بچت ہوتی تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام کی حمایت کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس طرزِ معاشرت کے باعث ہمارے بزرگ اپنی زندگی کا آخری وقت آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ پاک و ہند کے لوگ فخریہ طور پر اس نظام کو نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ مغربی طرزِ معاشرت کے سامنے اپنے مضبوط خاندانی نظام کی مثالیں پیش کر کے مغربی بے راہ روی کے بنیادی نکات اسی خاندانی نظام کو نہ ہونے کو گردانتے ہیں۔ اس کے برعکس مشترکہ خاندانی نظام کے عدم جواز میں لوگوں کا گراف زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب گھریلو جھگڑوں، سسرالی رشتوں میں چپقلش، غیبت، طلاق، استہزاء اور عدمِ تعاون جیسی شکایات کا انبار دیکھنے میں آیا۔ 80%عوام کا کہنا ہے کہ جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اتنی ہی پرائیویسی کم ہوتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی مسائل ہو جاتے ہیں۔ جس کے بھیانک اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں کیونکہ ہر شخص کی پسند ناپسند کا دائرہ کار مختلف ہوتا ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں سب کی زندگی کے مقاصد بھی ایک ہو جائیں۔ مثال کے طور پر ٹین ایج طبقہ کے نزدیک، چٹ پٹی اشیاء مرغوب ترین ہوتی ہیں دوسری جانب گھر کے بچوں کو ہلکی نمک مرچ جبکہ بزرگوں کا مزاج اور ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک خاندان میں 15تا 20 افراد ہوں اور کئی بہویں ملکر ساس کی نگرانی میں کھانا پکاتی، صفائی ستھرائی کے امور سرانجام دیتی ہوں اگر کسی نے کام میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کی یا بخوبی کام کو اس کے انجام تک نہ پہنچا سکی خواہ مجبوراً یا کسلاً تو اسکی اور اسکے خاوند کی خیر نہیں۔ ساس، سسر دوسروں کی تعریفات کا پُل باندھ دیتے ہیں یوں والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات کا نتیجہ اولاد کی کی نافرمانی میں ہی نکلتا ہے۔ یہیں سے دلوں میں کینہ و بغض بھر جاتا ہے پھر ایک دوسرے پر اعتراضات، طعن و تنقید کی جاتی ہے۔ ان تمام وجوہ کی بناء پر گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ قباحت ہے کہ جوائنٹ فیملی میں اگر نیا نویلا جوڑا علیحدگی کی بات کرتا ہے تو پورا خاندان اسے اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ اس نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا گویا سلطنت میں سے حصہ مانگ لیا ہو!!! بلکہ ایسا سوچنے والے کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خاندان کے درمیان رخنہ و نااتفاقی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ خاندان کے افراد کے مابین بظاہر اتفاق تو نظر آتا ہے مگراندر ہی اندر حسد و کینہ کی سازشیں پلتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں بالآخر یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے۔ نیز ایسے جھگڑوں کا بچوں پر بہت منفی اثر پڑتا ہے ان کی تربیت ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی کیونکہ جب ایک ہی گھر میں مختلف سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط؟؟؟ جس سے خود اعتمادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مستقبل میں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ چند لوگ ہندوانہ ویلیوز کو شریعت کا سہارا دینے کو کوشش کرتے ہیں لیکن ریسرچ کرنے پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، صوفیا و اولیاء اﷲ حتیٰ کہ طلوعِ اسلام 14سو سال قبل بھی مشترکہ خاندانی سسٹم کے آثار نہیں ملتے۔ حالانکہ ہماری اصل و بنیاد تو دینِ عربی ہے خود عرب میں نئی رہائش کے بغیر شادی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ عرب ممالک کے انفرادی نظام میں بھائی، بہنوں میں تاحیات الفت و محبت قائم رہتی ہے۔ وہیں والدین کی اعلیٰ نگہداشت کا عملی نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اسکے برعکس ماحول ہے کہ چھوٹے بیٹے کو والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے جبکہ باقی اولاد خدمت گزاری جیسے عظیم فرض سے محروم رہتی ہے۔ بہر کیف مخلوقِ کائنات نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے، سوچ مختلف ہے ، سب کو الگ الگ مقاصد اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سب کا مقصد ایک ہو اور سب کی پسند بھی؟؟؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024