مولانا رومی نے فرمایا تھا کہ میں نے بہت سے انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتا اور بہت سے لباس دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا۔ یہ قول سو فیصد ہمارے ہمسائے ملک کی لیڈرشپ پر صادر آتا ہے جن کی تمام زندگی حیوانیت سے عاری درندگی، بربریت اور ظلم پر محیط ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں احمد آباد کی قتل و غارت، انسانوں کو چھرا گھونپنے، گولیوں سے بھوننے، حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑنے، املاک کو نذرِ آتش کرنے کی وہ ہولناک داستانیں ہیں جن کو سوچ کر بھی یہ احساس نہیں ہو سکتا کہ یہ وحشت ناک قتل و غارت اور آبروریزی کوئی انسان کر سکتا ہے۔ لیکن جب ایسے واقعات کی پشت پر کوئی درندہ ذہنیت ہو تو سب کچھ پس پشت چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی کے مذہب کو چھیڑو نہ اور اپنے کو چھوڑو نہ۔ آج سینکڑوں سال پرانی بابری مسجد کی مسماری پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر ایسے گھنائونے جرائم کا ارتکاب حکومتی سرپرستی میں آج کی صدی میں ممکن ہے۔ جیسا کہ سینکڑوں مساجد کو شہید کر دیا گیا ہو اور جہاں کہیں اِکا دُکا مسلمان قابو میں آئیں اُنہیں تشدد سے قتل کیا جائے اور گائو ماتا کاٹنے کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو زندہ جلا دیا جائے۔ جہاں پادریوں سمیت چرچ خاک و خاکستر کر دئیے جائیں۔ جہاں ایک نوجوان ہندو دوشیزہ کو صرف اس وجہ سے زندہ جلا دیا جائے کہ وہ چرچ سے نکلتی دیکھی گئی ہے۔گائو ماتا کا احترام اور اس کے ساتھ عقیدت، اس کی پوجا، اس کے پیشاب کو امرت سمجھ کر پینے والے ہندوستان کے چہرے سے جب نقاب اُٹھائیں تو دنیا میں وہ گائیں کا گوشت ایکسپورٹ کرنیوالا دوسرا بڑا ملک ہے اور ان میں سے کوئی بھی ایکسپورٹر یا کارخانہ دار مسلمان نہیں بلکہ سب ہندو مذہب کے ماننے والے اور بھگوان کی پوجا کرنے والے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کہ ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘۔
ہمیں تو قائداعظم کی بصیرت، دانش اور اس کے سچے جذبے پر آج بھی پختہ یقین ہے کہ انہوں نے ہمیں علیحدہ ملک دے کر ہماری زندگی اور مذہب کو بچا لیا۔ آج ہندوستان سے آئے چند لوگ جو چند سال پہلے اس بات پر اظہارِ افسوس کرتے تھے کہ وہ یہاں کیوں آئے اور وہ 20 کروڑ مسلمان جو ہندوستان میں بسے رہے کہ یہ سیکولر ملک ہے یہاں مذہبی آزادیاں ہیں۔ آج اُن کا پچھتاوا دیکھا نہیں جاتا۔ تقسیم کے وقت سکھوں نے جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا آج اپنے ساتھ ہونیوالے ناروا سلوک، مذہبی آزادیوں پر پابندیاں، بابا گرونانک کی سمادھی پر ماتھا ٹیکنے کرتارپور نہ آنے دینا اور ننکانہ صاحب یاترا کیلئے اٹکائے گئے روڑوں اور اپنے ساتھ ہونیوالے متعصب سلوک کی وجہ سے خالصتان تحریک بیرون ملک تھی اب ہندوستان میں بھی آگئی ہے۔ آج سب سے زیادہ کٹھن امتحان کشمیر کے ایک کروڑ مسلمانوں کا ہے۔ جہاں آزادی کے متوالوں اور انکے گھروں پر درندہ صفت لوگوں کا سلوک پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کشمیر کا دروازہ غیرملکیوں کے لئے بند تھا لیکن اب تو ہندوستان کے لوگوں کو بھی وہاں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ کشمیر کے جنگلوں میں بسنے والے کشمیری گجر جو بھیڑ بکریاں اور ڈھور ڈنگر پال کر گزر بسر کر رہے تھے ان کے کچے کوٹھے گرا کر اُن کو برفانی سردی اور جنگلی جانوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کسی شہر کی گلی میں مقیم برہمن کے گھر میں مذہبی تقریب ہو رہی تھی کہ گلی میں کھیلنے والے اچھوت بچوں کا فٹ بال ایک بچے کی کِک سے برہمن کے گھر چلا گیا تو اچھوت ہندوئوں کو اس لئے مارا پیٹا گیا کہ تم نے ہمارا دھرم بھرشٹ کر دیا ہے۔ اچھوت بچہ بڑی معصومیت سے بولا کہ یہ کیسا مذہب ہے جو فٹ بال کے گرنے سے بھرشٹ ہو جاتا ہے۔آج شیخ عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی فیملی اور دیگر ایسی سوچ کے لوگ پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کا ساتھ کیوں دیا۔ اُنکی بدلی سوچ پر یہ خیال آتا ہے کہ ؎
زندہ ہو ضمیر تو جاگتا ضرور ہے
کبھی جرم سے پہلے اور کبھی جرم کے بعد
بقول محبوبہ مفتی کہ آج بی جے پی والے دفعہ 370 کے خاتمے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں جبکہ چینی فوج نے مشرقی لداخ میں ایک ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر قبضہ کرنے کے علاوہ بیس بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے لیکن اُس طرف ان کی زبان گونگی ہے۔
ہزاروں سال ٹکڑوں میں بسنے والا ہندوستان اور اس کے آقا آج ہندوستان کا حدود اربع دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے ہیں اور تبت کی لیڈرشپ اور رہنمائوں کو اپنے یہاں مقید کر رکھا ہے تاکہ چین کے خلاف وہ بولتے رہیں۔ پاکستان کے آوارہ گردوں کو ہندوستان اور افغانستان میں دہشتگردی کی تربیت دے کر پاکستان میں دہشت گردی، افراتفری اور املاک کی تباہی کے لئے بھیجتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38