چیف جسٹس سپریم کورٹ کا خراب حکومتی گورننس کا سخت نوٹس اور غریب عوام سے لاتعلق نہ ہونے کا عندیہ
استحصالی نظام والا ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑے بغیر خونیں انقلاب کا راستہ نہیں روکا جا سکتا
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے خصوصی بینچ نے ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی سے متعلق ازخود اختیارات کے کیس کی سماعت کے دوران ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی پیش کردہ رپورٹیں کاغذی کارروائی قرار دے کر مسترد کر دیں اور ٹھوس اقدامات سے متعلق پیش رفت کے بارے میں جنوری کے پہلے ہفتے تک رپورٹ طلب کرلی۔ گزشتہ روز دوران سماعت فاضل عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں باور کرایا کہ عدالت بیڈگورننس پر غریبوں کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی‘ کاغذی کارروائی کرکے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عملی اقدامات صفر ہیں۔ گزشتہ 12 سال سے یہ کیس چل رہا ہے‘ کیا عدالت شہروں میں جا کرصفائی کی ہدایت کرے۔ فاضل عدالت نے حکومتی وکلاء سے استفسار کیا کہ ہم کب تک قرضوں کی بھیک مانگ کر منصوبے چلاتے رہیں گے‘ کیا اب معاملات درست کرنے کیلئے آسمان سے فرشتے آئینگے۔ کیا بیڈگورننس پر ہم غریب عوام سے لاتعلق ہو جائیں اور انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے؟ جب حکومت خیبر پی کے کی جانب سے ڈی جی انوائرنمنٹ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ صوبے میں ایک ارب درخت اور ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بنک سے قرضہ لے کر شروع کیا گیا تھا تاہم فنڈز کی بندش کے باعث پلانٹ بند کرنا پڑے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارا اتنا بڑا ملک ہے مگر اب بھی قرضے سے چلایا جارہا ہے‘ ہم پہلے قرضے لے کر منصوبے شروع کرتے ہیں اور پھر منصوبوں کو چلانے کیلئے بھی قرضوں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ آخر کب تک ہم بھیک اور قرضوں پر چلیں گے۔ فلاحی معاملات پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔
یقیناً بہتر گورننس اور عوام کے روٹی روزگار اور صحت و تعلیم کے مسائل مناسب طور پر اور بلاتاخیر حل کرکے ہی حکومتی اتھارٹی کو تسلیم کرایا اور عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں بھی اچھی گورننس کا کلیدی کردار ہوتا ہے مگربدقسمتی سے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنیوالے حکمرانوں نے اب تک اپنی ایسی گورننس کی مثال قائم نہیں کی جس کے باعث عوام اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں مطمئن ہوئے ہوں اور ملک شاہراہ ترقی پر گامزن نظر آیا ہو۔ اسکے برعکس حکمرانوں کے اللے تللے‘ من مانیاں‘ لوٹ مار اور کرپشن و اقرباء پروری کے نظارے جابجا نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے جبکہ طاقت و اختیار کے زور پر ملکی قومی وسائل کو شیرمادر سمجھ کر لوٹتے اور عوام کو مسائل کے بوجھ تلے دبا کر راندۂ درگاہ بنائے رکھنے کی روش احتساب اور جوابدہی کا مؤثر نظام نہ ہونے کے باعث ایک ناسور کی طرح پھیلتی ہی چلی گئی ہے۔ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال نے انگریز اور ہندو کے استحصالی‘ طبقاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے برصغیر کے مسلمانوں کو اس نظام سے خلاصی دلانے اور آبرومندی کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرنے کے موقع فراہم کرنے کیلئے ہی ایک الگ مملکت کا سوچا اور پھر قائداعظم نے پرامن جدوجہد کے ذریعے قیام پاکستان کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کا الگ خطے کا خواب شرمندۂ تعبیر بھی کر دیا مگر قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کے انتقال کے باعث مفاد پرست استحصالی طبقات پھر منظم ہو گئے اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کرکے بانیان پاکستان کے متعین کردہ مقاصد پائوں تلے روند کر یہاں پھر استحصالی طبقاتی نظام کی جڑیں مضبوط بنانا شروع کر دیں۔ ہم انگریز اور ہندو کی غلامی سے تو نکل آئے مگر ہماری صفوں میں موجود مسلمان استحصالی طبقات نے اپنے مفادات کی خاطر مذہب کی آزادی کو فرقہ واریت کا گہن لگا دیا اور ہندو ذہنیت والا استحصالی ساہوکارانہ نظام مسلط کرکے طبقاتی فاصلے بھی بڑھانا شروع کر دیئے‘ نتیجتاً غریب غریب تر اور معمولی تعداد میں موجود امیر امیر تر ہوتا گیا جس نے غالب اکثریت میں موجود بے وسیلہ طبقات کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ یہ استحصالی طبقات جمہوری نظام میں عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار پر براجمان ہوتے تو عوام کے نام پر اپنی شخصی حکمرانی مسلط کرلیتے جبکہ یہی طبقات اپنے مفادات کے تحت اسٹیبلشمنٹ کے آلۂ کار بن کر جمہوریت کی بساط الٹوانے کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے چنانچہ ہمارا وطن عزیز اور اسکی غالب اکثریت عوام کو قائداعظم کے پاکستان والی متعین کردہ منزل آج تک حاصل نہیں ہو سکی۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ بھی آٹھ 9 سال پہلے تک نظریہ ضرورت کو اوڑھ کر انہی مفاد پرست استحصالی طبقات ہی کو تقویت پہنچاتی رہی ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے حصے میں آنیوالی عدلیہ آزاد و خودمختار ہوتی اور انصاف کی عملداری کا پرچم تھام کر اسے بلند کئے رکھتی تو یقیناً استحصالی طبقات کو قائد کے پاکستان کو اسکی منزل سے ہٹانے کی کبھی جرأت نہ ہوتی۔
آج بے شک عدلیہ آزاد و خودمختار ہے مگر استحصالی نظام کے تسلسل نے عوام کے مسائل اتنے بڑھا دیئے ہیں اور گورننس اتنی خراب کر دی ہے کہ اب نظام کی درستی کیلئے عدلیہ کی خودمختاری بھی کسی کام نہیں آرہی اور ’’سٹیٹس کو‘‘ میں جکڑی سلطانیٔ جمہور بھی جمہور کی حکمرانی کے نام پر عملاً استحصالی طبقات کی چراگاہ بن کر رہ گئی ہے اور جمہور کو اس میں عملاً لاتعلق کردیا گیا ہے۔ اس تناظر میں جب تک ملک میں صحیح معنوں میں انصاف کی عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی‘ ’’سٹیٹس کو‘‘ والے استحصالی طبقات کا عوام اور ملک کے مفادات کیخلاف گٹھ جوڑ توڑنا ناممکن ہوگا کیونکہ سلطانیٔ جمہور میں یہ گٹھ جوڑ منتخب ایوانوں میں باہم مفادات کے تحفظ کا شاہکار بنا رہتا ہے جس میں اقتدار کی باریاں لگانے پر بھی اتفاق کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح طاقت و اختیار کے زور پر اپنے اپنے دور کی کرپشنوں‘ بے ضابطگیوں اور نااہلیوں کو بھی قانونی تحفظ دلا دیا جاتا ہے اور مزید اللے تللوں اور من مانیوں کی راہ بھی ہموار رکھی جاتی ہے چنانچہ قوم یہی تماشا دیکھ رہی ہے کہ سابق ادوار سے اب تک کی لوٹ مار کیخلاف مقدمات اور ریفرنسوں میں ملوث ان استحصالی طبقات کیخلاف کوئی کیس ناکافی ثبوتوں کے باعث ثابت ہی نہیں ہوتا اور وہ عدالتی عملداری میں سرخرو ہو کر کرپشنوں کے تالاب میں چھلانگیں مارتے نظر آتے ہیں۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ عدلیہ میں سیدسجادعلی شاہ کے دور سے شروع ہونیوالے جوڈیشل ایکٹوازم کو آج تک ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح کی خاطر مستحکم ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدلیہ بحالی تحریک کے ذریعے معاشرے کو آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا گہوارا بنانے کا بیڑہ اٹھایا مگر کرپشن کلچر کے حمام میں انہیں بھی لتھیڑ دیا گیا۔ انکے بعد اب تک کے ہر منصف اعلیٰ کی جانب سے انصاف کی عملداری کیلئے فکرمندی کا اظہار کیا جاتا ہے اور گورننس میں موجود خرابیوں کا رونا رویا جاتا رہا ہے مگر عدالتی نظام کی کمزوریوں کے باعث ہی اب تک مفاد پرست استحصالی طبقات کا گٹھ جوڑ توڑنے کی نوبت نہیں آسکی۔ آئین پاکستان میں جس پارلیمانی نظام کا تصور دیا گیا ہے‘ وہ درحقیقت بانیان پاکستان کے متعین کردہ اسلامی‘ فلاحی جمہوری معاشرے کے تصور کے عین مطابق ہے جس میں ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ اور اسے روزگار‘ تعلیم‘ صحت کی تمام ضروری سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر آئین پاکستان کے تقاضوں کے مطابق گورننس کی جائے تو دولت و وسائل کے ایک مخصوص طبقے تک مرتکز ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کسی کو من مانیاں اور قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کرنے کی جرأت ہی نہ ہو‘ یہاں میرٹ کا بول بالا ہو اور انصاف کی عملداری مخصوص طبقات کی باندی بنی انکے آگے بے بس نظر نہ آئے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی اس حوالے سے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں جس کا انہوں نے سینٹ خطاب کرتے ہوئے گورننس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے اظہار بھی کیا ہے اور اب ماحولیاتی آلودگی کے ازخود اختیارات والے کیس بھی انہوں نے اپنے ریمارکس کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کے مطابق انصاف کی عملداری کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سسٹم کی اصلاح کیلئے انکے ریمارکس کو ہی گائیڈ لائن بنالیا جائے تو اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل سکتی ہے مگر اس کیلئے نظام عدل میں موجود کمزوریاں اور خامیاں دور کرکے اسے اتنا مستحکم اور خودمختار بنایا جانا ضروری ہے کہ کسی سرکش کو نکیل ڈالی جائے تو اسے اپنے بچ کر نکل آنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ کشکول توڑنے کے دعویدار موجودہ حکمران اب کڑی شرائط پر بیرونی قرضوں کی اقساط پر اقساط لے کر امور حکومت و مملکت چلا رہے ہیں جبکہ ان جبری قرضوں کے شکنجے میں جکڑی قوم عملاً زندہ درگور ہو گئی ہے۔ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار باضابطہ طور پر یہ قرار کرتے ہیں کہ اس وقت ملک کی آبادی کا 60 فیصد سے بھی زائد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے تو اس حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے دعوئوں اور بہتر گورننس کے کریڈٹ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ آج عوام کی غالب اکثریت روٹی روزگار کے جن گھمبیر مسائل کا شکار ہے انہیں اپنے مسائل کے مقابل حکمران اشرافیہ طبقات قومی دولت و وسائل سے جس آزادی کے ساتھ اپنے آنگن بھرنے میں مصروف نظر آتے ہیں‘ اس سے سپریم کورٹ کے تجسس کے باوصف خونیں انقلاب کی راہ ہی ہموار ہوتی نظر آتی ہے۔ حکمرانوں کو اپنی صفیں درست کرنی چاہئیں اور ملک کو خونیں انقلاب کی جانب دھکیلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی میں انکی‘ عوام کی اور ملک کی بہتری ہے۔