سلطانی ¿جمہور کے دوران مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ
نوائے وقت سروے کے مطابق موجودہ عوامی حکومت کے ساڑھے چار سالہ دور میں عوام کی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور تاحال عوام کے گرد مہنگائی کا رقص جاری ہے، مہنگائی کنٹرول کرنے میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ 2008ءمیں آٹا 13 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا جو کہ اب 32 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح چینی 21 روپے فی کلو سے بڑھ کر 55 روپے فی کلو، کوکنگ آئل 90 روپے کلو سے بڑھ کر، 150، 190 روپے کلو، دودھ 30 روپے کلو سے بڑھ کر 90 روپے فی کلو اور اسی تناسب سے دالوں، چاول، دہی سمیت دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ پٹرول، ڈیزل، سی این جی گیس، ایل پی جی گیس، بجلی، سوئی گیس، پانی کے بلوں کے نرخوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو۔
جمہوری حکومت کی اوّلین ذمہ داری ان لوگوں کےلئے ممکنہ حد تک ریلیف کا اہتمام کرنا ہوتا ہے جن کے ووٹ سے یہ منتخب ہوتی ہے۔بد قسمتی سے موجودہ حکومت نے ایسا کچھ کیا نہ اسکی طرف سے ایسا کرنے کا کوئی عزم و ارادہ نظر آ یا۔ اب عام انتخابات سر پر ہیں حکومت اور تو بہت کچھ کر رہی ہے لیکن مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کی کوششیں ہنوز عنقا ہیں۔ ایک طرف عوام پریشان ہیں تو دوسری طرف کرپشن کا بھوت قومی وسائل کو کھا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کے دوران کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمودنے کہا تھاکہ ایف آئی اے میں کرپشن کرانے میں حکومت اور وزارت داخلہ خود ملوث ہے۔ اس موقع پر کمیٹی کے رکن کرنل طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر ماہ آٹھ سو ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ جب حکمران سرکولر ڈیٹ کا رونا روتے ہیں تو انکے پیش نظر وہ کرپشن بھی ہونی چاہیئے جو حکومتی اداروں میں ہوتی ہے۔ سرکولر ڈیٹ تو ایک ماہ کی کرپشن سے بھی کم ہے۔ حکومت آج کرپشن کے خاتمے کا ارادہ کرکے سخت اقدامات کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ عوام کو ریلیف نہ دے سکے۔