ہتک عزت بل:آزادی صحافت پر حملہ ! 

 پنجاب حکومت کے ہتک عزت بل 2024ء کی منظوری کے بعد پنجاب میں کہرام مچا ہوا ہے۔صحافتی تنظیمیں اور میڈیا مالکان حکومت سے ناراض ہو چکے ہیں اور ’’ہتک عزت بل ‘‘ کو صحافتی برادری پر شب خون قرار دیتے ہوئے ’’کالے قانون ‘‘ کا نام دیا ہے اور احتجاج کی کال دے دی ہے کیونکہ پنجاب حکومت نے کسی بھی قسم کی مشاورت کے بغیر طاقت کے زور پر ہتک عزت بل کی منظوری دی ہے جس کا اطلاق الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا جس میں واٹس ایپ بھی شامل ہے تمام پلیٹ فارمز پر ہوگا اسی لئے تمام صحافتی تنظیموں ، میڈیا مالکان ، اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی ببانگ دہل کہا ہے کہ یہ شخصی آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی  کوشش ہے کیونکہ پہلے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان کے گھیرے میں صرف عام آدمی آتا ہے، اب مزید اس گھیرے کو تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ’’جواب دہی ‘‘ کا خوف نہ رہے بایں وجہ اپوزیشن نے بھی ہتک عزت قانون کے خلاف میڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تو اس بل کے واپس نہ ہونے کی صورت میں ملک گیر تحریک چلانے کا بھی اعلان کیاہے۔
تحریک انصاف کے دور میں جب پیکا ایکٹ 2016ء میں ترامیم کی کوشش کی گئی تھی تب بھی کہرام مچ گیا تھا کیونکہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور وہ کوشش بھی اس لئے کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی اپنی بدصورتی دکھانے والے آئینے توڑ دینا چاہتی تھی جبکہ اس مرتبہ تو سٹیک ہولڈرز کو چکما دینے کی کوشش کی گئی ہے اور انتہائی پھرتی کے ساتھ منظوری دے دی گئی ہے۔۔سوال تو یہ ہے کہ حکومت نے اتنی عجلت میں کسی بھی قسم کی مشاورت کے بغیر ایسا متنازعہ بل کیسے اور کیونکر منظورکیا ہے ؟ تو واضح ہے کہ حکومت کی ترجیحات تشہیری منصوبوں کے ارد گرد گھوم رہی ہیں کہ اگر پنجاب میں سستی روٹی کا نعرہ لگایا تو وہ مجبوری ہے کیونکہ مہنگے داموں خراب گندم خرید چکے ہیں اور اب تو پانچ روپے کی روٹی بھی دے دیں تو بھی نقصان نہیں ہوگا مزید ناجائز کوڑا ٹیکس لگانا اور بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسوں کا ذکر جو کہ صحافی کرتے رہتے ہیں، ان کی نظر میں ڈی فیم کرنے کی سازشیں ہیں یعنی برسر اقتدار ہر وہ آئینہ توڑ دینا چاہتے ہیں جو ان کی اصل صورت دکھاتا ہے لیکن اس آڑ میں وہ غریب اور عام آدمی کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو کہ سوشل میڈیا پر سوال اٹھاتے ہیں کہ بتائو گندم بحران کا ذمہ دار کون ہے اور دبئی لیکس کیا ہے؟ مزید برآں برسر اقتدار جماعت کے علاوہ ہر وہ شخص اس قانون کے خلاف ہے جس کے دل میں خوف الہیٰ اور خوف آخرت موجود ہے۔۔کیونکہ سب کو نظر آرہا ہے کہ یہ آزادی رائے پر حملہ ہی نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کی کوشش ہے جو کہ اس قانون کی آڑ میں طاقتور با آسانی کر سکیں گے ،اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین کا کام عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ایسے قوانین وضع کرنا ہوتا ہے جس سے عوام بہتر زندگی گزار سکیں اور ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور یہاں امن عامہ کی صورتحال کس سے چھپی ہے کہ کوئی تاریک راہوں میں مارا جاتا ہے ،کوئی دن کی روشنی میں غائب ہو جاتا ہے ،کوئی سر عام اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے اور فریاد کوئی نہیں سنتا
بدقسمتی کے ساتھ ہمارے ارکان پارلیمان ایوان میں بیٹھ کر صرف ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے قوانین بناتے اور ختم کرتے مدت اقتدار گزار دیتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔الیکشنوں میں میڈیائی آزادی کا راگ آلاپتے نہیں تھکتے لیکن جیسے ہی برسر اقتدار آتے ہیں تو میڈیا کی زبان بندی کے لئے سر جوڑ لیتے ہیں کیونکہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت چلاتے ہیں تو کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ جمہور سوال کرے یعنی جواب دہی سے بچنے کے لئے ایسے  قوانین بنائے جاتے ہیں جن کا مقصد ایسا خوف پھیلانا ہے کہ لوگ سچ لکھنے ، بولنے اور سوال پوچھنے کی ہمت نہ کریں اور برسر اقتدار من مانیاں اور ریشہ دوانیاں کرتے پھریں تبھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں ورنہ کیسے ممکن تھا کہ ہتک عزت بل منظور ہونے پر اپوزیشن نے کاپیاں پھاڑ دیں ،ان کی اپنی اتحادی جماعت نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،میڈیا مالکان و کارکنان بھی اس بل کے خلاف نعرے لگاتے پریس گیلری سے واک آئوٹ کر گئے لیکن پھر بھی بل کی منظوری دے دی گئی یعنی کسی کی پرواہ نہیں ہے ؟
آج ہر ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے: یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب سے اتحادی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہر وہ قانون پاس کرواتی جارہی ہے جس میں ان کا ذاتی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے اور جو مفاد سے ٹکراتا ہے اس قانون کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ایسے مقاصد کے حصول کے لیے عہدوں اور وزارتوں کی بندر بانٹ جاری ہے یعنی ہر طرف اندھیر نگری مچی ہے اوراس پر حکم دیا جارہا ہے کہ جو زنجیر عدل ہلائے اس کے سر پر گر جائے۔۔ایسی شخصی آمریت کا خواب تو ہمارے اسلاف نے نہیں دیکھا تھا !درحقیقت مسئلہ سچ لکھنے والوں سے ہے تو ایسے کتنے لوگ رہ گئے ہیں یعنی موجودہ صحافیوں کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے ، اولاً ایسے  شاہ دماغ ہیں جنھیں نام و نمود سے کچھ نہیں لینا بس وطن سے محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے اور دوئم ایسے دانشور جن کی تنقید حق بات پر مبنی ہو نہ ہو ان کا مدعا مخالف نظریات رکھنے والے حکمران پر حرف گیری کرنا ہوتا ہے اور ممدوح حکمران کے ہر عمل کو سراہنا ہوتا ہے کیونکہ انھیں بھی مفادات عزیز ہیں پھر چند شبنم کی بوندیں سیلاب کیونکر لا سکیں گی ؟
بحرحال یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مئی جو آزادی صحافت کا مہینہ ہے، اسی مہینے میں وقت کے حکمرانوں کی طرف سے ایسی قانون گردی کی گئی ہے جس پر پورے ملک میں صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ یہی حکمران آمروں کے دور میں ایسے قوانین کے خلاف صحافیوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوا کرتے تھے یقیناً ات خدا دا ویر ہوندا اے اور جب کوئی پوری طاقت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے پھر معاملہ مالک کائنات تک چلا جا تا ہے۔۔ ماضی کے حکمرانوں نے اپنے کل سے سبق نہیں سیکھا اور اسی کوشش میں ہیں کہ وہ خوف کی علامت بن جائیں حالانکہ یہ وقت دل جیتنے کا تھا کہ فارم 47 کی بحث جاری ہے۔۔اب کون سمجھائے کہ خدا کبھی لیکر اور کبھی دیکر آزماتا ہے اور جو نہیں سمجھتے انھیں وقت سمجھا دیتا ہے اس لئے حکمرانوں کو چاہیے کہ’’ ہتک عزت بل ‘‘ واپس لیں، تنقید کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھیں اور اپنی راہوں کو آسان کریں کیونکہ حکمران کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...