
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ حکومت وقت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے کیونکہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا سکتی ہے- اگر حکومت نے پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تو یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد یہ اقدام اٹھایا جائیگا-انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہے اور انکے افسوسناک شر پسندانہ اقدامات کے بعد بھارت میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کہا ہے کہ حکومتی وکلاء کی ٹیم تحریک انصاف پر پابندی کے سلسلے میں غور کر رہی ہے- خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے دلوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے- حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون" ووٹ کو عزت دو "کی علمبردار رہی ہے -یہ جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کو اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دینے کے حق سے کیسے محروم کر سکتی ہے-9 مئی کے المناک واقعات میں چند سو افراد شامل تھے ان کی وجہ سے تحریک انصاف کے حامی پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردینا کہاں کا انصاف اور جمہوریت ہے-پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہیں-بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے پابندی لگانے کی غلطی کی تو عدلیہ اسے ایک دن کے اندر کالعدم قرار دے دے گی- پاکستان تحریک انصاف 22 سالہ پرانی سیاسی جماعت ہے جو عوام میں سب سے زیادہ مقبولیت رکھتی ہے- کسی مقبول سیاسی جماعت کو انتخابی میدان سے باہر رکھ کر جو بھی انتخابات کروائے جائیں گے ان کو پاکستان کے عوام اور عالمی رائے عامہ کیسے تسلیم کرے گی-
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعت پر پابندی لگا کر اسے سیاسی میدان سے باہر کرنے کا تجربہ کیا جا چکا ہے جو کامیاب ثابت نہیں ہو سکا تھا- 8 فروری 1975کو پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما حیات شیر پاو کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا- 10 فروری 1975 کو حکومت نے تیسری آئینی ترمیم کرکے یہ اختیار حاصل کرلیا کہ حکومت ایسی سیاسی جماعت پر پابندی لگا سکتی ہے جو ملک دشمنی میں ملوث ہو اور ملکی سلامتی کے خلاف کام کر رہی ہو- عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہوا جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ اسلحہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو دیا جانا تھا- پی پی پی نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں پابندی لگانے کا ریفرنس دائر کیا- چیف جسٹس پاکستان حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا گیا جس میں جسٹس یعقوب علی خان، جسٹس انوار الحق، جسٹس صلاح الدین، جسٹس گل محمد، جسٹس محمد افضل چیمہ شامل تھے-پاکستان کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار استغاثہ کے وکیل تھے جبکہ میاں محمود علی قصوری وکیل صفائی تھے- سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی عائد کر دی-پارٹی کے مرکزی لیڈر عبد الولی خان ارباب سکندر خان غوث بخش بزنجو عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری کو گرفتار کر لیا گیا-جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد ان تمام لیڈروں کو رہا کردیا - نیشنل عوامی پارٹی نے اپنا نام تبدیل کرکے عوامی نیشنل پارٹی رکھ لیا-2002ء کے انتخابات سے پہلے جنرل پرویز مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو اور پی پی پی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی - محترمہ بینظیر بھٹو نے فوری طور پر مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں پی پی پی پارلیمنٹیرینز کے نام سے نئی پارٹی رجسٹر کرا لی اور انتخابات میں حصہ لیا-
پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے امکانات نظر نہیں آتے البتہ اس جماعت کے اہم لیڈروں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو توڑنے کی کوشش ضرور کی جائے گی جس کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے-اب تک تحریک انصاف کے درجنوں لیڈر اپنی پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں جن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر بھی شامل ہیں جنہوں نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے تو استعفیٰ نہیں دیا البتہ پارٹی کے عہدے چھوڑ دیے ہیں - تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کچھ عرصے کے لیے اپنی پارٹی سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے-تحریک انصاف کی مرکزی لیڈر شیریں مزاری نے سیاست کو ہی خیر باد کہ دیا ہے- وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو جو اختیارات دیے تھے ان کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے- انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور چادر و چار دیواری کے تحفظ اور وقار کو کسی خاطر میں نہیں لایا جارہا - یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے- تحریک انصاف کیمطابق اب تک ان کے دس ہزار کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اس سطح کے اقدام کا سیاسی خمیازہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ہی بھگتنا پڑے گا-جبر اور دباو کے تحت تحریک انصاف کے جو لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں ان کو مخالف سیاسی جماعتیں مال غنیمت کی طرح آپس میں تقسیم کر رہی ہیں- پاکستان کے شہداء قوم کی آن اور شان ہیں - پاکستان کی سلامتی آزادی اور عوام کی عزت اور وقار کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو ہمیشہ دلی عزت اور احترام سے نوازا گیا ہے -عقل نہیں مانتی کہ تحریک انصاف کے کارکن اس حد تک بھی جا سکتے ہیں کہ وہ اپنے شہیدوں کی یادگاروں کے تقدس کو ہی پامال کر ڈالیں- تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مفاہمت کی خاطر ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں تو وہ پیچھے ہٹنے کے لیے بھی تیار ہیں- اس پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے- جو کارکن 9 مئی کے سانحہ میں شامل نہیں تھے ان سے پر تشدد سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا حلف نامہ لے کر رہا کر دینا چاہیے تاکہ غصے کے جذبات میں اضافہ نہ ہو اور دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کے مشتعل جذبات سے فائدہ نہ اٹھا سکیں- پاک فوج نے 9 مئی کو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا یہ قابل ستائش قومی جذبہ جاری رہنا چاہیے اور بے گناہ لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے-