
مولا جٹ کے مولے نے دشمنوں کو للکارللکار کر کہا کہ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا۔ اور جب مولا جٹ کے مولے کی ایک ٹریفک حادثے نے جان لے لی تو اخبارات نے اس کے انتقال کی خبر کو اسی شرخی کے ساتھ شائع کیا۔ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا اورمولے کی موت کے ساتھ اس کا یہ ڈائیلاگ امر ہوگیا۔ ہماری سیاست میں ایک ایسی شخصیت تھی جس نے دہائیوں سیاست پر راج کیا۔ وہ سیاست اور حکومتوں کی ضرورت بن چکا تھا۔ حکومتیں بنانے اور گرانے میں اس کی حمایت انتہائی اہم ہوتی۔اس کی ایک کال پر گھنٹوں میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوجاتا۔ اس کے اشارے پر ملک کا سب سے بڑا شہر منٹوں میں بند ہوجاتا۔ اس کے چاہنے والے اسکے خلاف ایک لفظ سننا گوارا نہ کرتے۔ وہ سیاست کیلئے ناگزیر بن چکا تھا اسے مائنس کرنے کی بات تو دور, سوچنا بھی جرم بن جاتا۔ وہ کچھ بھی کہتا صحیح یا غلط آگے سے ایک ہی آواز آتی، جی بھائی۔ اس کی میڈیا کوریج ریٹنگ کا پیمانہ تھی جو چینل اسے زیادہ دکھاتا وہی ریٹنگ کی دوڑ میں نمبر ون ٹھہرتا اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے جو سب بدل دیتا ہے۔ 22 اگست 2016 کا دن۔ لندن میں موجود بھائی حسب روایت اپنے کارکنوں سے ٹیلی فون پر خطاب کرتا ہے اور اس میں کچھ پاکستان مخالف جملے ادا کر دیتا ہے۔ اس کے بعد سب بدل جاتا ہے۔ اسے چھوڑنے کا کبھی خیال تک نہ کرنے والے ایک ایک کر کے لاتعلقی اختیار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جس کی تقریر السلام علیکم سے خدا حافظ تک تمام ٹی وی چینلز بغیر کسی وقفے کے براہ راست دکھاتے تھے اب اس کا نام تک لینا چھوڑ چکے تھے اور سالوں گزرنے کے بعد بھی اس کی اپنی پارٹی اس کا نام لینے کو تیار نہیں۔وہی جماعت جس کی بنیاد اسی نے رکھی اس کی پہچان وہی تھا اس کے بغیر اس جماعت کا تصور ہی ممکن نہ سمجھا جاتا۔
ایک اور راہنما جس نے اپنی جماعت بنائی، کھڑی کی۔ ملک کی بڑی سیاسی قوت بنا۔اس کے بڑے بڑے جلسے اس کی پہچان بن گئے۔ یہ جلسے بھی ٹی وی چینلز پر اس کے سٹیج پر آنے سے سٹیچ چھوڑنے تک براہ راست نشر کئے جاتے۔ وہ بھی ریٹنگ کا پیمانہ بن گیا تھا۔ اس کی بات کرنیوالے لائیکس اور ویوز کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جاتے۔ اس کے کارکن بھی اس کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ وہ اپنے کارکنوں کیلئے سب کچھ تھا، سب کچھ۔ ان کیلئے کچھ بھی اس سے بڑھ کر نہیں تھا۔ اس نے بھی کارکنوں کے اس جذبے کا خوب استعمال کیا اپنے مخالفین کو ان کے ذریعے ایسا رگدیتا کہ کوئی سامنے ٹھہر نہ پاتا۔ سوشل میڈیا کا جیسا اس نے استعمال کیا پاکستان میں کوئی اور جماعت نہ کرسکی۔ وہ جو فیصلہ کرتا سب اس پر وہ واہ شروع کر دیتے۔ وہ وہی فیصلہ واپس لیتا تو سب اسے سرپرائز کہہ کر بلے بلے شروع کر دیتے۔ اس نے کارکنوں کو اپنے خلاف امریکی سازش کی کہانی سنائی تو انہوں نے نعرہ لگادیا غلامی نامنطور۔ اس نے پھر کہا کہ نہیں یہ امریکی سازش نہیں تھی تو کسی نے سوال نہ کیا کہ پہلے ایسا کیوں کہا۔ پھر اس نے فوج مخالف نعرہ دیا۔ وہی جرنیل جن کی تعریفوں کے بغیر اس کی تقریر مکمل نہیں ہوتی تھی اب وہی اس کے دشمن ٹھہرے اور اس کے سپورٹرز نے بھی مان لیا اور ایسا مانا کہ سوشل میڈیا پراپنی ہی فوج کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ وہ ان کا مرشد بنا اور وہ اسے مرشد کی طرح ہی سجھتے۔ اور پھر آتا ہے 9 مئی 2023 کادن۔ اس کی گرفتاری تو دو روز کیلئے ہوئی لیکن ان دو روز میں سب بدل گیا۔ اسکے فوج مخالف بیانیے کی آگ نے بہت کچھ راکھ کردیا۔ حساس فوجی اور ریاستی تنصیبات پر حملوں کا ایسا ردعمل آیا کہ اس کے انتہائی قریبی ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑ نے لگے۔ اگر 22 اگست نہ آتا توشاید الطاف حسین آج بھی کراچی کا بے تاج بادشاہ ہوتا۔ اپنی دودرجن پکی نشستوں کے ساتھ وہ آج بھی مرکز میں حکومتوں کی مجبوری ہوتا۔
اگر9 مئی نہ آتا تو آج بھی عمران خان کو چھوڑنے والوں کی بجائے اس کا ٹکٹ لینے والوں کی قطاریں لگی ہوتیں۔ وہ اگلے سیٹ اپ میں وزارت عظمی کا سب سے مضبوط امیدوار ہوتا لیکن 22 اگست اور 9 مئی کی وجہ سالوں سے چلتی ایک خاص سوچ بنی۔ خود کو عقل کل اور سب سے اوپر سمجھنے کی سوچ، ان دونوں جماعتوں میں ایک شخص کے فیصلے ہوتے تھے اور ایک شخص کیلئے ہی فیصلے ہوتے۔ جن پر اجتماعی عقل و دانش سے زیادہ انفرادی جذبات اور انتقام حاوی رہتا اور اسی سوچ نے ریڈ لائنز بھی کراس کردیں ۔
پاکستان کی سیاست میں کئی بڑے لیڈرز کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی، کسی کو پھانسی دے کر کسی کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اور کسی کو عدالتی سزاوں کے ذریعے لیکن مائنس وہی ہوتا ہے جسے عوام مائنس کرتے ہیں یا پھر وہ خود۔الطاف حسین اور عمران خان بھی سیاسی مولا جٹ کے وہ مولے ہیں جنہیں مولا نے تو نہیں مارا انہوں نے خود ہی اپنے فیصلوں سے اپنی سیاسی موت کا پروانہ تیار کرڈالا۔
٭…٭…٭