بدھ‘ 4 شوال ‘ 1441 ھ‘ 27؍مئی 2020ء
رویت ہلال کمیٹی اور وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی ٹسل۔ دس بجے چاند کا اعلان
رویت ہلال کمیٹی اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ایک بار پھر چاند کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہی۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں طرف سے چاند دیکھنے کو اپنا اپنا حق تسلیم کیا جا رہا ہے اور کوئی کسی دوسرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ اس دوران صرف اور صرف مولانا پوپلزئی اطمینان سے ان دونوں کو لڑتا بھڑتا دیکھ کر مزہ لیتے رہے اور انہوں نے سب سے پہلے اپنی من مرضی سے بنا چاند دیکھے ہی اتوار کو عید منانے کا اعلان کیا۔ لگتا ہے وہ سعودی عرب اور افغانستان کے ساتھ بہر صورت عید منانے کے اپنے پرانے مؤقف پر قائم ہیں۔ جبھی تو ہر سال ان کے ساتھ عید مناتے ہیں۔ اب پاکستانی رویت ہلال کمیٹی اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے جس طرح ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی‘ وہ افسوس کی بات ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے رویت ہلال کمیٹی کے علماء اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سائنسدان مل بیٹھ کر اس تنازع کا کوئی حتمی حل نکالیں اور مل جل کر افہام و تفہیم کے ساتھ ایک کلینڈر تیار کر لیں جس طرح ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ یوں چاند دیکھنے کی ہر ماہ کی ٹینشن ختم ہو جائے گی اور پوری قوم ایک روز ہی محرم‘ شوال اور ذی الحج کی مذہبی تقریبات منا سکے اور یہ جو ہر سال ہم دنیا کے سامنے اپنا تماشا بناتے ہیں‘ اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ سائنس اور مذہب کے درمیان یوں مقابلہ آرائی کی فضا پیدا کرنا غلط طرزعمل ہے۔
…٭٭……٭٭…
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے پاکستان کے ساتھ عید منائی
مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ عید منا کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ ذہنی اور دلی طورپر خود کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اب بھارت لاکھ وہاں نوٹ نچھاور کرے یا گولیوں اور بموں کی برسات‘ کشمیری عوام قدم قدم اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ بھارت میں مسلم علماء اور شاہی مسجد دہلی کے امام نے رات 8 بجے بھارت میں چاند نظر نہ آنے کے اعلان کے ساتھ پیر کو عیدالفطر منانے کا اعلان کیا مگر کشمیریوں نے ان کے اعلان کو ان سنا کرکے رات سوا دس بجے جب پاکستان کی طرف رویت ہلال کا اعلان ہوا تو سارے کشمیر میں مساجد سے اتوار کو پاکستان کے ساتھ عید منانے کا اعلان کردیا گیا۔ یوں کشمیریوں نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستانی ہیں‘ ہندوستانی نہیں۔ اب بھی اگر بھارت والوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں‘ انہیں ہوش نہیں آتا تو وہ جو جی چاہے کر لیں‘ جتنا چاہے کشمیر میں ظلم کریں یا اپنے زرخرید ایجنٹوں کو نوازیں‘ کشمیری کبھی بھی بھارت کے ساتھ رہنا پسند نہیں کریں گے۔ جب بھی انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملا‘ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ عید عید منانے کا فیصلہ ہی دیکھ لیں‘ کیا یہ ریفرنڈم سے کم ہے کہ سارے کے سارے کشمیر نے 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں محاصرے کی حالت کے باوجود پاکستان کے ساتھ عید منائی ہے۔
پاکستانیوں نے عید الفطر کی خوشی میں کرونا کو فراموش کر دیا
دنیا بھر میں عیدالفطر کرونا وائرس کی وجہ سے نہایت سادگی سے منائی گئی مگر قربان جایئے پاکستانی قوم پر‘ انہوں نے چاند رات سے قبل اور چاند رات کو جس طرح بازاروں‘ دکانوں اور شاپنگ سنٹرز پر ہلہ بولا‘ وہ اپنی مثال آپ تھا۔ تمام پابندیوں کو فراموش کرکے بالائے طاق رکھ کر مردوزن‘ بچے‘ بوڑھے‘ حکومتی پابندیوں سے بے نیاز ہوکر بازاروں میں یوں اُمڈ پڑے تھے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا عوام‘ کیا دکاندار سب مل کر حکومتی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ بازاروں میں کھوئے سے کھوا اچھلتا رہا۔ کسی کو پروا تک نہیں تھی کہ ابھی کرونا ختم نہیں ہوا۔ بس موقع ملنے کی دیر ہے‘ جنگل میں منگل کا سماں پورے پاکستان میں صبح 4 بجے تک نظر آتا رہا۔ لوگوں نے دل کھول کر عید کی خریداری کی۔ لگ نہیں رہا تھا یہ وہی قوم ہے جو لاک ڈائون کے دوران کاروبار اور روزگار کی بندش کی وجہ سے بھوکا مرنے کا رونا رو رہی تھی۔ لائنیں لگا کر 12‘ 12 ہزار روپے کی امداد حاصل کرنے کیلئے مسکین صورت بنائے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہے تھے۔ سڑکوں‘ چوراہوں پر‘ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر امداد اور صدقات و عطیات وصول کرتے تھے۔ ذرا لاک ڈائون میں نرمی کیا آئی‘ سارا منظر بدل گیا۔ امداد مانگنے والے مہنگے داموں کے باوجود خریداری کیلئے ٹوٹ پڑے۔ خدا خیر کرے۔ یہی حال عید اور ٹرو کے روز رہا، لوگ دکانوں‘ ہوٹلوں اور سڑکوں پر بنا کسی حفاظتی اقدامات کیلئے ملتے اور کھاتے پیتے نظر آئے۔خدا کرے کہ عوام کو یہ غلطی مہنگی نہ پڑے اور ستے خیراں رہے۔
…٭٭……٭٭…
امریکہ کا جوہری تجربے پر غور اور ایک عسکری ڈیل سے دستبرداری
یہ عجب دو رنگی ہے امریکی سیاست میں کہ ایک طرف تو اطلاعات کے مطابق خود امریکی اخبارات بتا رہے ہیں‘ ایک ہفتہ قبل امریکی انتظامیہ اپنا نیا جوہری تجربہ کرنے یا نہ کرنے پر غور کر رہی تھی کیونکہ امریکہ کو بڑا عرصہ ہو گیا کہ اس نے جوہری تجربہ نہیں کیا۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ روس اور چین نے بھی کئی مرتبہ ہلکے اور بھاری جوہری ٹیسٹ کئے ہیں جبکہ امریکہ نے 1992ء کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا۔اب شاید اس کے دل میں بھی جوہری ٹیسٹ کی خواہش چٹکیاں لے رہی ہے۔ دوسری طرف اسلحہ کی دوڑ سے بچائو کے نام پر امریکہ نے ایک بڑی عسکری ڈیل سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ روس کے ساتھ اعتماد سازی کی فضا بہتر بنانا چاہتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ساتھ بڑے بڑے عسکری معاہدے کئے جا رہے ہیں‘ ان کی وجہ سے اسلحہ کی دوڑ میں جو تیزی آرہی ہے‘ اسے کم سے کم کیا جائے۔ اب ان دونوں باتوں پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ ایک طرف دنیا کو برباد کرنے کیلئے خوفناک تباہ کن ایٹمی تجربات پر غور کیا جا رہا ہے‘ دوسری طرف امریکہ تباہ کن ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لانے کے اقدامات کر رہا ہے۔ یہ عجب معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
٭٭٭٭٭٭