جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
پیپلز پارٹی کبھی میری ’’پسندیدہ‘‘ جماعت نہیں رہی لیکن اس جماعت میں حاجی نواز کھوکھر سید خورشید شاہ ، قمر الزماں کائرہ ،ندیم افضل چن،میاں رضا ربانی ،فرحت اللہ بابر ، مولا بخش چانڈیو ، مصطفی نواز کھوکھر،چوہدری منظور سمیت پیپلز پارٹی کے متعد د رہنما میرے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہیںجن میں بیشتر کے ساتھ ذاتی سطح پر مراسم ہیں ۔نصف صدی قبل پیپلز پارٹی کا حصہ بننے والوں کی بہت بڑی تعداد اب اس دنیا میں نہیں یا پارٹی چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ آج کی پیپلز پارٹی میں بہت بڑی تعد ان لوگوں کی ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کا حصہ بنی۔ قمرالزماں کائرہ کا شمار بھی ان ہی رہنمائوں میںہوتا ہے جو بے نظیر بھٹوکی پیپلز پارٹی کا حصہ بنے یا ان کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی میں ’’وارد ‘‘ ہوئے ۔ جب سے قمر الزماں کائرہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں ان سے یاد اللہ ہے بے تکلفی اس حد تک کہ جب کبھی وہ نوائے وقت ہائوس اسلام آباد آتے تو رپورٹنگ روم میں ضرور آتے اور ازراہ مذاق میری نشست کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ ’’مسلم لیگ(ن) کارنر ‘‘ پر حاضری دئیے بغیر کیسے جا سکتا ہوں ‘‘ 2018ء کے انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کے صاحبزادے کی شادی کی تقریب میں قمر الزماں کائرہ سے اچانک مڈ بھیڑ ہو گئی تو میں نے ان کو دیکھتے ہی سوال داغ دیا ’’ کائرہ صاحب شرمندہ نہ کرنا؟‘‘ تو انہوں نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’’ انشاء اللہ میں آپ کو شرمندہ نہیں کروں گا ‘‘ اردگر د موجود افراد میری اور قمر الزماں کائرہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کو سمجھ نہیں پائے لیکن میں اور قمر الزماں کائرہ سمجھ رہے تھے کہ کس حوالے سے بات ہو رہی ہے ۔ قمر الزماں کائرہ کے بارے میں افواہ مشہور تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کو داغ مفارقت دے کر تحریک انصاف کا حصہ بننے والے ہیں لیکن انہوں نے تحریک انصاف تو ’’جوائن‘‘ نہیں کی لیکن تحریک انصاف ندیم افضل چن کو ’’اغوا‘‘ کر لے گئی ہے اور وہ آج وزیر اعظم ہائوس کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ زرداری ہائوس اسلام آباد میں قمر الزماں کائرہ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے چوہدری منظور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا میں ان کے ہونہار صاحبزادے اسامہ قمر کائرہ کی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے کی خبر ان کا تعاقب کر رہی تھی پریس کانفرنس میں ایک اخبار نویس نے جرات کرکے انہیں اسامہ قمر کے ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے کی اطلاع دے ہی دی یہ منظر ٹیلی ویژن کے کیمرے کی آنکھ نے بھی محفوظ کر لیا لیکن اس دوران ان کو اپنے صاحبزادے اسامہ قمر کائرہ اور اس کے دوست حمزہ بٹ کے جاں بحق ہونے کی اطلاع بھی مل گئی لیکن قمر الزماں کائرہ نے جس حوصلے سے اپنے صاحبزادے اسامہ قمر کائرہ اور اس کے دوست حمزہ بٹ کی وفات کی خبر سنی شاید کوئی اور باپ تو وہیں ڈھیر ہو جاتا لیکن انہوں نے حوصلے سے اپنے لخت جگر کی شہادت کی خبر سنی اور اپنے پائوں پر چل کر لالہ موسی کے لئے کار پر روانہ ہوئے ۔ سچی بات ہے کہ بالکل بھی یقین نہیں آرہا‘ اور حقیقت یہ ہے کہ لکھا بھی نہیں جارہا‘ کیسے میں اپنے دوست و مہربان قمر زمان کائرہ سے ان کے جوا ں سال صاحب زادے اسامہ قمر کے انتقال پر تعزیت کروں‘ جن کی کمر پر ایک ایسا بوجھ لد گیا ہے کہ جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے لیکن یہ اللہ تعالی ہی ہے جو انہیں صبر جمیل دے گا اور ہمت بھی‘بے شک ناگہانی موت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے نبی اکرمؐ نے بھی ناگہانی موت سے پناہ مانگی ہے اور اس لئے کہا گیا ہے کہ’’ جو کسی حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوجائے وہ شہید ہے۔ میرے پیارے بھائی قمر زمان کائرہ کا صاحب زادہ اسامہ بھی شہید ہے اور وہ شہداء میں شامل ہے شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے‘ یقیناً ہمارے دوست کا بیٹا اسامہ بھی زندہ رہے گا‘ اللہ ہی ہے جوصبر دے دیتا ہے وگرنہ زندگی سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے‘‘ اس موقع پرمیر انیس کا شعر یا د آ رہا ہے ’’؎دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ‘‘ اسامہ قمر کے انتقال پر تعزیت کے لئے نواب زادہ نصر اللہ مرحوم کے صاحبزادے و قومی اسمبلی کے رکن نواب زادہ افتخار احمد خان جو پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات ہیں ‘ روزنامہ جسارت کے اسلام آباد بیورو چیف میاں منیر احمد اور نواب زادہ عدنان احمد خان کے ہمراہ لالہ موسی میں ’’کائرہ ہائوس ‘‘ میں حاضر ہوا‘ کائرہ ہائوس کے لان میں خلق خدا موجود تھی جو انہیں دلاسہ دینے آئی ہوئی تھی ہر عام اور خاص انہیں دلاسہ دینے پہنچا‘ چوہدری منظور احمد‘ طارق فضل چوہدری‘ ملک ابرار‘ جہانگیر ترین‘ عون چوہدری‘ ڈاکٹر خالد محمود ، ڈاکٹر طارق سلیم ، چوہدری ریاض‘ الغرض مقامی اور غیر مقامی بڑی تعداد میں احباب وہاں موجود تھے اسامہ بیٹے کے
جنازے میں بھی پورا شہر امڈ آیا تھا‘ کس قدر یہ خوش نصیب بچہ تھا‘ اللہ تعالی اسے کروٹ کروٹ جنت عطاء کرے‘ آمین‘اسامہ کائرہ کے ساتھ حادثے میں اُس کا دوست حمزہ بٹ بھی جاں بحق ہوا تھا‘موت نہیں دیکھتی کہ کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کا باپ‘وہ تو زندگی کا تعاقب کرتی رہتی ہے باپ کا دکھ کوئی باپ ہی سمجھ سکتاہے، بیٹا نہیں،وہ جب انجانے راستوں پر بہت دور نکل جاتا ہے، وہاں چلا جاتاہے جہاں سے صدا بھی پلٹ کر نہیں آتی‘ قمر زمان کائرہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص جناب سے رحمت کرتے ہوئے صبر عطاء کیا ہے‘ بے شک موت کا ذائقہ ہر شخص نے چکھنا ہے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔یہی بے رحم دکھ ازل سے ہم سب کا ہمزاد ہے۔ہمیشہ کیلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ کلیجہ چیر دیتا ہے اے رب العالمین! صمیم قلب سے ہم دعا گو ہیں کہ ہمارے دوستوں‘ احباب کے گھر والوں اور قوم کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھ‘ کسی کو بھی غم نہ دے اور ہمیں اس قابل بنا ئے کہ ہم تیری رضا میں خوش اور راضی رہیں‘ جو بھی مانگیں تجھ سے مانگیں تیرے ہی آگے جھکیں‘ رسم قل کے موقع پر کائرہ غم بانٹنے کے لئے آئے ہوئے لوگوں اور قرآن خوانی کی محفل میں بتایا کہ اسامہ کس قدر فرماں بردار بچہ تھا‘ ہر دفعہ گھر والوں کو بتا کر باہر جاتا مگر اس بار بتا کر نہیں گیا‘ اسامہ بہت ہی ہمدرد اور خدا ترس بچہ تھا انسانیت کی خدمت کرکے خوش ہوتا‘ اسے سیاست پسند نہیں تھی ہر وہ کام کرتاجس سے انسانیت اور خلق خدا کو فائدہ پہنچے قمر ازماں کائرہ نے اسد اللہ غالب کے مر ثیہ کے درج اشعار سنائے
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کاہے گویا کوئی دن اور
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائرہ صاحب کو ہمت و حوصلہ عطا فرما ئے دکھ کی اذیت سب کی ایک جیسی ہوتی ہے زندگی اور موت سانجھی ہے غم تو سب کا ایک سا ہوتا ہے ان کے مرحوم بچے کے حسن اخلاق اور نرم خوئی کا ذکر سب نے کیا یہی ان کے لئے آسودگی کا باعث بنے
گا اس بچے کا اخلاق در اصل ماں باپ کی تربیت کا ہی اثر تھا‘ اس بچے نے زندگی میں بھی نام کمایا اور اپنے آخری سفر پر جاتے ہوئے لوگوں کی دعائیں لیں‘ یہی دعائیں کائرہ صاحب کے لئے ہمت کا باعث بنیں گی ہمیں یقین ہے کہ اس دارالفنا میں ہر شے فنا ہو جانی ہے ، اپنے رنگ بدلتی، مٹی میں ملتی اور پھر سے جنم لیتی ہے درختوں کی ٹہنیوں پر سجے ہوئے خوبصورت پھول مرجھاتے اور پھر بکھر کر مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر اِسی مٹی کی زرخیزی سے اُسی پودے کی ٹہنیاں اُسی طرح کے خوبصورت پھولوں سے بھر اور سج جاتی ہیں۔ ہم اُن کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے اور اُن کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں لیکن ان کی نازکی، غیر پائیداری اور فانی ہونے پر غور نہیں کرتے۔ مرجھاتے پھول، درختوں سے گرتے خزاں رسیدہ پتے اور فکر و قدرت کے ان گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے اور پیغام دیتے ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بھی بقا نہیں، کسی کو بھی دوام نہیں‘ لیکن یہاں دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں پہلی یہ کہ اب ہمیں ضرور اس بات کا احساس کرلینا چاہیے کہ ہائی ویز پر ٹریفک کا بہائو کیسے بہتر اور با حفاظت بنایا جاسکتا ہے‘ چھوٹی سواری اور موٹر سائیکل اور تانگہ‘ ریڑھا کے لیے ہائی ویز اور بڑی مصروف شاہراہوں پر آنے میں اگر روک نہیں الی جا سکتی تو ان کے لئے ایک الگ ضرور ٹریک ہونا چاہیے تاکہ یہ خود بھی محفوظ سفر کریں اور دوسروں کے سفر کو بھی محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہوں ۔ جی ٹی روڈ پر کئی سال بعد سفر کا موقع ملا جب سے موٹر وے تعمیر ہوئی ہے جی ٹی روڈ پر سفر ترک کر دیا ہے میں 8سال قبل اپنے ہم جماعت مسعود پرویز قریشی کی وفات پر گجرات آیا تھا ۔ لالہ موسیٰ سے میری بڑی یادیں وابستہ ہیں زمانہ طالبعلمی میں لالہ موسی ٰ میں اپوزیشن کے جلسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے راولپنڈی سے لالہ موسیٰ اور پھر اسلام آباد واپسی 6گھنٹوں کے سفر پر محیط ہے. تھکا دینے والے سفر کا موٹر وے سے تقابل کرتا ہو ں ہوں تو بے اختیار میاں نواز شریف کے لئے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ جاتے ہیں جنہوں نے پشاور سے کراچی تک موٹر وے کا نیٹ ورک قائم کر دیا ہے۔