افطاریاں تو بہت دیکھی ہیں ۔ شریک بھی ہوئے ہیں۔ ایوان صدر میں بھی اور بڑے ہوٹلوں میں بھی۔ شہر میں دوستوں کے ہاں بھی۔ مگر تقی پور گائوں میں افطاری جیسی پیاری افطاری تھی جو ہمیں ہر رمضان میں یاد رہے گی۔ اپنے گھر میں بھی افطاری ایک روح پرور سماں کی طرح ہوتی ہے۔ جن بچوں کا روزہ نہیں ہوتا۔ وہ بھی اتنے اعتبار اور پیار سے شریک ہوتے ہیں کہ مزا آ جاتا ہے۔ تقی پور ایک گائوں ہے مگر یہ لاہور کا حصہ ہے۔ لاہور سے باہر بھی اور لاہور کا حصہ بھی۔ جس طرح کچھ لوگ شاہدرہ کو لاہور کا حصہ سمجھتے ہیں اور کچھ ایک شہر کہتے ہیں۔ میرے لیے تقی پور ایک بہت معزز اور سماجی شخصیت والی خاتون نازش یعقوب کا گائوں ہے۔ یعقوب صاحب کا تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ یعقوب صاحب ہیں نازش یعقوب کے والد ، یاسمین حمید اس کی جڑواں سہیلی ہے جیسے جڑواں نہیں ہوتی ہیں۔ وہ نازش کزن سے زیادہ اس کی دوست ہے۔ وہ مل کر کام کرتی ہیں اور اگر کام نہیں کرتیں تو بھی مل کر نہیں کرتی۔ افطاری سے پہلے گائوں کی بڑی مسجد میں اعلان ہوا کہ گائوں کے سب لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ افطاری کے لیے شیخ محمد عاشق اور شیخ محمد یعقوب کے گھر پہنچ جائیں۔ ایک کھلے صحن میں میلہ لگ گیا۔ افطاری ہوئی۔ تکلف والے لوگوں کی طرح افطاری نہیں ہوئی لوگ پورے جوش و خروش سے شریک ہوئے۔ شور و غل اور دھما چوکڑی ہوئی کچھ لوگ تو گتھم گتھا ہوتے ہوئے رہ گئے۔ صحیح معنوں میں عوامی اور دیہاتی افطاری۔ یہ ہوتا ہے ایک ساتھ افطاری کرنے کا مزا۔ کوئی آدمی بھوکا نہیں رہا۔ پیاسا نہیں رہا۔ آمنے سامنے تو ہوئے مگر کوئی مدمقابل بھی کھانے پینے سے محروم نہیں رہا۔ مجھے یعقوب صاحب نے الگ جگہ بٹھایا۔ مگر اٹھ اٹھ کر لوگوں کی افطاری کی دھینگا مشتی کو دیکھتا رہا۔ بہت سی بچیاں اور محترم خواتین مجھے دیکھنے کے لیے میرے کمرے کے چکر لگاتی رہیں۔ میں یہاں کوئی عجیب چیز تھا۔ شہر اور دیہات کا فرق آج مجھے اچھی طرح معلوم ہوا۔ یہ میری زندگی کی یادگار شام تھی۔ اس کے لیے میں نازش یعقوب کا شکر گزار ہوں۔ یاسمین حمید بھی اس کے ساتھ ساتھ تھی۔ افطاری سے پہلے اس کے بہت خوبصورت مگر عام سے گھر میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ دیہاتوں میں اچھے بھلے گھر بھی دوسرے گھروں جیسے ہوتے ہیں۔ مجھے اس طرح کی عزت اور محبت کے قابل سمجھا گیا اور ایسا پروٹوکول دیا گیا کہ جیسے میں اس گھر کا مالک ہوں۔ ایک فراواں جذبہ ہر آدمی کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ بہت بچیاں اور بیبیاں تھیں۔ بے بیاں بھی تھیں کے میں محبتوں کے حصار میں تھا۔ مجھے اپنے گھر میں بھی اتنا مزا کبھی نہیں آیا۔
نازش کی امی یاسمین حمید، عائشہ ، مہوش ، عشرت، کلثوم، طیبہ اور دوسری بہت سی بیٹیاں اور بہنیں علی بھائی، شیخ محمد عاشق، شیخ منظور ، محمد سلطان اور گائوں کے بہت سے لوگ۔ چھوٹی بچیاں ، نمل زہرا اور فاطمہ علی، نمل زہرا تو مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ بھولپن اور محبت کی فراوانی کسی کو نہیں بھولتی۔ یہ حیران کر دینے والی افطاری تھی اور میں اچانک اس گائوں میں نازش کے پاس آیا تھا۔ سارا گائوں ہماری محبت میں گھل مل گیا۔ نازش نے ایم فل کیا ہے اور وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہے۔ حیرت ہے کہ جب وہ اپنی ابتدائی پڑھائی کی باتیں کر رہی تھی ، میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ تقی پور سے شہر میں پڑھنے آتی تھی اور یہ رستہ اتنا دشوار گزار اب بھی ہے کہ میں اس کے گائوں جاتے جاتے دھول مٹی سے اس لیے بچ گیا کہ میں ائرکنڈیشنڈ گاڑی میں تھا۔ مگر گائوں پہنچا تو وہاں دھول نہ تھی پھول ہی پھول تھے اور یہ پھول انسانی صورت میں تھے۔ ابھی تو مجھے باہر کھیتوں میں نازش اور اس کی دوست لے جانا چاہتی تھیں۔ میں نے سوچا کہ اکیلا مرد اتنی اچھی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ عجب لگے گا۔ پروگرام بنتے بنتے رہ گیا۔ نازش کے بھائی اور گھر والے افطاری کی تیاری میں مصروف تھے جو سب گائوں کے لوگوں کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔
نازش کو یہ بھی دکھ ہے کہ اس کے گھر کو جانے والے راستوں میں کھیت ختم ہوتے جا رہے تھے۔ جہاں کھیت ہوتے۔ سبزہ اور گل و گلزار ہوتاوہاں لوگوں نے مکان بنانے شروع کر دئیے ہیں۔ نازش نے بتایا کہ کھیتوں کو برباد کیا جا رہا ہے اور گھر بنائے جا رہے ہیں ایسی بے گھری تو ہم نے کہیں نہیں دیکھی۔ نازش نے بتایا کہ یہاں کھیت ہوتے ، کشادگی اور ویرانی ہوتی، ویرانی مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ویرانی نہ ہوتی تو حیرانی بھی نہ ہوتی۔ ایک ویرانی انسان کے اندر ہوتی ہے جو دل کو آباد رکھتی ہے۔ اس دور میں ہم ویرانیوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
سڑک کے دوسری طرف ایک بہت بڑا راستہ ہے جو بہت سجایا بنایا گیا ہے۔ سائیکل چلانے کے لیے بنایا گیا ہے مگر وہاں مجھے کوئی سائیکل نظر نہیں آیا۔ نازش نے کہا کہ ہمیں تو کبھی بھی سائیکل نظر نہیں آیا۔ لوگ سرکاری فنڈز ضائع کرنے کے لیے اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔
مگر میں یہ سب کچھ دیکھنے نازش کے گائوں نہیں جا رہا تھا۔ یہ چیزیں تو ہم شہر میں بھی جگہ جگہ دیکھتے ہیں۔ مجھے راستوں سے پیار ہے مگر آج میں اپنی منزل نازش کے گائوں جانے کے لیے بے قرار تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024