مودی کی جیت: شدت پسند بے لگام ہونے لگے
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے سیونی میں انتہا پسند ہندوئوں نے گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں مسلمان جوڑے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم مسلمان نوجوان کو درخت سے باندھ کر ڈنڈوں اور لاتوں سے مار رہا ہے، اور اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کے سر پر جوتے برسائے۔ مظلوم جوڑے سے جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے گئے۔
لوک سبھا کے نومنتخب مسلمان رہنما اسد الدین اویسی نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ مودی کے ووٹرز نئے بھارت کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ مودی کے جیتنے پر اگر شدت پسند بے لگام ہو رہے ہیں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت کے حالیہ انتخابات جمہوریت نہیں بلکہ ہندو ازم اور ہندو توا کے نام پر لڑے گئے ۔اب تک بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا رہا ہے اور مغربی ممالک میںسیکولر بھارت کی بڑی تعریف کی جاتی ہے۔ مگر اب یہ سب باتیں ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔ بی جے پی اور مودی کا مشن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اُس نے پہلے بحیثیت وزیراعلیٰ گجرات، مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا اور اُنہیں اور دوسری اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنائے رکھا۔ پھر وہ اپنے اس مشن کو لے کر ہی بھارت کا وزیراعظم بنا اور اس بار تو اُسے پہلے سے بھی زیادہ اکثریت ملی ہے۔ لہٰذا اب مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی خیر نہیں۔ بی جے پی نے مذہبی تعصب کا اس شدت سے پرچار کیا ہے کہ ہندوستان رام راج کی راہ پر چل نکلا ہے۔ تاریکی کی طرف شروع ہونے والے اس سفر سے عالمی برادری کو آگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں بھارت سے برادرانہ تعلقات رکھنے والے بعض مسلم ممالک بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بھارتی آئین نے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو جو حقوق دئیے ہیں کم از کم اُن کا ہی احترام کیا جائے۔