دوائوں کی قیمتوں میں ’’کمی‘‘
وفاقی حکومت نے جان بچانے والی سمیت 78 ادویات کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے نوٹیفکیشن میں نئی قیمتوں کا تعین تو کر دیا گیا ہے‘ لیکن قیمتیں بڑھانے والے ذمہ داران کا تعین نہیں کیا گیا۔ قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لینے کیلئے وزیراعظم نے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کی رپورٹ بھی سامنے نہیں لائی گئی۔
قیمتیںکم کی گئی ہیں مگر پہلی والی سطح پر نہیں لائی گئیں جبکہ ضرورت پہلے والی سطح میں بھی کمی کی تھی۔ دوائوں کی نئی قیمتوں کو دیکھ کر فوری تاثر ابھرتا ہے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے۔ اعلامیے میں کئی ایسے خلاء چھوڑ دیئے گئے ہیں جن کی آڑ میں بعض کمپنیوں کو اپنی دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کیلئے کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ٹی بی ڈرپ‘ آنکھ کے درد اور کچھ پرانی اینٹی بائیٹک ادویات کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ کیا گیا ہے بلکہ انہیں قانونی شکل دیدی گئی ہے۔ دوائوںکی کمی کے تاثر سے عوام کو جو ’’ریلیف‘‘ دیا گیا ہے‘ وہ کچھ اس طرح ہے کہ بلڈ پریشر کی ایک گولی کونکو کہلاتی ہے جوعموماً 2.5 ایم جی میں دی جاتی ہے،اس کی قیمت 62 روپے تھی، قیمتیں بڑھانے کی ریس لگی تو اس کی قیمت سو فیصد بڑھا کر 125 روپے کر دی گئی۔البتہ وزیراعظم کے نوٹس کا یہ ’’اثر‘‘ ہوا ہے کہ اس کی قیمت واپس لانے کی بجائے 105 کر دی گئی ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بیورو کریسی حکومت کے عوام دوست فیصلوںکو کس طرح ہوا میں اڑاتی ہے۔ قیمتوں میں کمی کے علاوہ عوام توقع رکھتے تھے کہ قیمتیں بڑھانے کے ذمہ داروں کی بھی نشاندہی کی جائے گی‘ لیکن نوٹیفکیشن اس باب میں خاموش ہے۔ یہ درست ہے کہ لاگت اور جائز منافع کو ملا کر قیمتیں مقرر کی جانی چاہئیں۔ اس لئے کہ کسی بھی پروڈکٹ کی لاگت سے کم قیمت فروخت پر اصرار کرنا انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے‘ لیکن یہ بھی عوام سے زیادتی ہے کہ منافع کی شرح جو معقول حد تک ہونی چاہئے‘ سو فیصد کر دی جائے۔ عوام کے مفادات کی محافظ کوئی بھی حکومت یہ دھاندلی برداشت نہیں کر سکتی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے۔ کیا وزیر صحت اس بے قاعدگی کا نوٹیفکیشن لیں گی یا عوام کو منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔