پیر ‘ 21 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 27 ؍مئی 2019ء
بلاول کا دورہ رتو ڈیرو ہسپتال، ایچ آئی وی کے مریضوں کو مکمل سہولتیں دینے کی ہدایت
پیپلز پارٹی کے قائد کو بالاخر رتوڈیرو میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خبروں کی اشاعت کے بعد علاقے کا دورہ کرنا ہی پڑا۔ دورہ بھی عجیب تھا۔ شاہانہ استقبال ۔ وی آئی پی عالیشان کمرے میں جو کسی ہسپتال کا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹروں اور انتظامی عملے سے ملاقات ٹی وی چینلز پر سب نے دیکھی۔ اس سے بڑی فلم تو وہ چلی جب بلاول صاحب ہسپتال پہنچے تو کیمرے کی آنکھ نے وہ مناظر دیکھے کہ ناظرین (لوگوں) کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ہسپتال میں صاف ستھرے عمدہ استری شدہ لباس میں ملبوس مریض قطار میں بیٹھے ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔ عورتوں اور بچوں نے خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ بال سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ ایسے صاف ستھرے مریض تو اسلام آباد یا کراچی کے کسی ہسپتال میں نظر نہیں آتے۔ صرف دو دن پہلے کی اسی ہسپتال کی فلم نکلوا کر چلائیں تو دھول میں اٹے پھٹے کپڑوں پرانی جوتیاں پہننے مفلوک الحال کمزور لوگوں کا اژدھا اصل صورتحال کی عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ بلاول جی کی آمد پر جو فلمبندی ہوئی وہ مصنوعی محسوس ہو گی۔ چلو جو ہوا سو ہوا اب اس پر مٹی پائو۔ اب بلاول جی نے جو یہ پھلجڑی چھوڑی ہے کہ یہ خطرناک مرض نہیں اس کا علاج ممکن ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ابھی تک ذہنی طور پر لندن میں رہتے ہیں جی ہاں یورپ میں تو ہر مرض کا علاج ہے۔ پاکستان کی تو بات ہی نہ کریں یہاں تو خوراک کی قلت اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے سندھ ہی کے علاقے تھر میں روزانہ دو سے تین بچوں کی اموات ہمارے سامنے ہے تو کیا بلال صاحب کو ان اموات کی خبر نہیں۔ ایچ آئی وی تو ہی ہے جان لیوا…!
٭…٭…٭
کرکٹرز کو ورلڈ کپ میں فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت
نجانے کون سی ایسی افتاد ٹوٹ پڑی ہے کہ پی سی بی والوں نے کرکٹ کے کھلاڑیوں کی بیگمات کو بھی ورلڈ کپ میچوں میں ساتھ رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ پہلے ذرا ہماری انگلینڈ والی کارکردگی دیکھیں پھر وارم اپ میچ میں ہارنے کا صدمہ یاد کریں اس کے بعد کوئی احمق ہی ہو گا جو ایسے احکامات جاری کر سکے۔ یہ خوش گمان فیصلہ کرنیوالوں نے ایسا دوسری ٹیموں کو دیکھ کر کیا ہے۔ شاید یہ دیکھ کر کہ دوسری ٹیموں کے کھلاڑی اپنی بیگمات کو پاس دیکھ کر زیادہ اچھا کھیل پیش کرتے ہیں تو ہمارے کھلاڑی بھی ایسا ہی کریں گے۔ چلیں دیکھتے ہیں ان کی یہ خوش فہمی کتنی دیر برقرار رہتی ہے۔ ویسے اب ہمارے کھلاڑیوں کی توجہ کھیل سے زیادہ بیگمات کو شاپنگ کرانے ان کو کھلے خرچ کیلئے پیسے دینے پر ہی رہے گی۔ اگر بچے بھی ہیں تو پھر اللہ اللہ خیر سلا ۔ ان کوکھلانا پلانا بھی ان کے فرائض شوہری میں شامل ہو گا۔ پھر رات کو کھانا پینا چکرپر جانا دیر سے سونے کے بعد یہ کیا خاک کھیلیں گے۔ اوپر سے سرفراز احمد کہہ رہے ہیں کھلاڑی ہمت نہ ہاریں جلد اچھا کھیل پیش کریں گے۔ دعا تو یہ ہے بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ میں پاکستانی ٹیم جیت جائے ورنہ کہیں ٹیم کی رہی سہی ہمت بھی جواب نہ دے جائے۔ جتنی دعائیں ہم اللہ میاں سے مانگتے ہیں اتنی ہی بنگلہ دیش والے بھی مانگتے ہوں گے کیوں کہ وہ بھی مسلمان ہیں۔ اس لیے اس میچ میں دعا سے زیادہ کھیل سے کام چلے گا جو اچھا کھیلے گا وہ جیت جائے گا…
٭…٭…٭
پناہ گاہوں کا دائرہ پورے پنجاب میں
پھیلایا جائے گا: وزیراعلیٰ
وزیراعلیٰ پنجاب نے حکومت کی طرف سے سڑکوں پر شب بسر کرنے والے غریب غربا اور فٹ پاتھوں کے مکینوں کے لیے پناہ گاہ کے نام سے شروع جس منصوبے کا افتتاح کردیا ہے وہ حکومت کے نیک کارناموں میں سے ایک شمار ہو گا۔ جس سے لاہور میں روزانہ سینکڑوں مسافر حضرات کو مفت شب بسری کے ساتھ کھانے پینے اور ناشتے کی سہولت بھی ملے گی۔ اسے ہم ایک ٹکٹ میں 4 مزے بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب حکومت پنجاب نے پورے صوبے میں ایسی پناہ گاہوں کے قیام کابھی اعلان کیا ہے۔ سچ کہیں تو بنا کسی معاوضے کے ایسا کام نہ پہلے کہیں نظر آیا نہ ہوا۔ عام سرائے والے بھی چارپائی اور بستر مفت فراہم نہیں کرتے۔ کاش ہماری اپوزیشن بھی روایتی افطار ڈنر پر خرچ کرنے والے لاکھوں روپے ایسے نیک کاموں پر خرچ کرے تو عوام کو ہی فائدہ ہو گا۔ مگر انہوں نے تو عوام کی خدمت کا سارا بوجھ اب نئی حکومت پرڈال دیا ہے۔ افطار ڈنر کی سیاست بھی اچھی بات ہے۔ کچھ لوگ مل بیٹھ کر کھا پی لیتے ہیں۔ ڈکار مارتے اور بیان داغتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب دیکھنے میں بھولے بھالے لگتے ہیں مگر سب تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ تو چھپے رستم نکلے۔ چپکے چپکے کئی کام کررہے ہیں۔ اب وہ اپنے اس اہم عوامی خدمت کے منصوبے کو ان چالاک چوہوں سے بھی محفوظ رکھنے کی راہ نکالیں جو روزانہ مسافر بن کر مفت میں قیام و طعام کی سہولتوںسے لطف اندوز ہونے کا عادی ہو رہے ہیں۔ یہ عارضی پناہ گاہیں حقیقی مسافروں اور مجبوری کے باعث فٹ پاتھوں پر ٹھہرنے والوں کے لیے مخصوص ہیں ان کو پیشہ ور افراد کی جائے پناہ نہ بننے دیا جائے۔
٭…٭…٭
نشوا کے گھر والوں نے ہسپتال والوں سے صلح کر لی
ظاہر ہے جب ملزم بااثر اور طاقتور ہوں تو عدالتی احکامات کے باوجود نتیجہ یہی نکلے گا۔ پہلے کے متعدد کیس اس بات کے گواہ ہیں۔ جب اعلیٰ گھرانوں کے مدعی بھی بااثر ملزمان کے اثر و رسوخ اور طاقت کے سامنے بے بس ہو گئے۔ اب یہی نشوا کے والدین نے بھی مصالحت کے نام پر دیت کی رقم لے کر کیا ہے۔ یہ تو کراچی کی نشوا کا مسئلہ تھا۔ راولپنڈی کی عظمیٰ کیس میں یہی ہوا، عدالت کی طرف سے ایکشن کے باوجود بالآخر عظمیٰ کے والدین نے دیت وصول کر لی۔ یہ سب کیا دھرا اس غربت کا ہے جو غریبوں کے گھروں سے جاتی ہیں۔ اس ڈائن کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنی پھول جیسی بچیوں کو گھریلو ملازمائیں بناتی ہیں جنہیں کوئی جلا کر کوئی مارمار لاش کی صورت میں واپس کرتا ہے جب تک یہ غربت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ہم اسی طرح اپنے پیاروں کے خون کی دیت وصول کرکے ظالموں کو رہائی دلواتے رہیں گے۔